جموں/۸اپریل
جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے منگل کو کہا کہ وہ وقف ترمیمی قانون پر بحث کرنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کو تبدیل نہیں کریں گے ۔
پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد غنی لون کی قیادت میں اپوزیشن کے تین ارکان اسمبلی کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پوچھے جانے پر راتھر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ اسے ایوان کے سامنے لانے کےلئے خوش آمدید ہیں، جو فیصلہ کرے گا۔
اسپیکر نے کہا”مسئلہ کیا ہے؟ انہیں یہ حق حاصل ہے اور ایوان اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ اگر ایوان میں اعتماد نہیں ہے تو مجھے وہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے“۔
راتھر نے حکمراں نیشنل کانفرنس کی قیادت والے اتحاد اور اپوزیشن پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کے احتجاج کرنے والے ارکان کے علاوہ کچھ آزاد ارکان کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ایوان کی کارروائی کو ہموار طریقے سے چلنے دیں۔
وقف ترمیمی قانون پر بحث کا مطالبہ کرنے اور تحریک التواءکے نوٹس مسترد کرنے کے ان کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسپیکر نے ایوان کی کارروائی مسلسل دوسرے روز بھی ملتوی کردی۔
نائب وزیر اعلیٰ‘سریندر چودھری اور دیگر وزراءکے احتجاج کرنے والے ممبروں کے ساتھ اس قانون پر بحث کےلئے دباو¿ ڈالنے پر انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مطالبہ کون اٹھا رہا ہے۔
اسپیکر نے کہا کہ چاہے وہ حکومت ہو، وزیر ہو، اپوزیشن ارکان ہوں یا کوئی اور، مجھے فیصلہ کرنے کےلئے قواعد کے مطابق بیان کا جائزہ لینا ہوگا۔” اگر قواعد اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، تو میرے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیان کون دے رہا ہے۔ میں نے قواعد کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک فیصلہ کیا ہے اور میں اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا“۔
راتھرنے وقف ترمیمی قانون پر بحث کے سلسلے میں نو ارکان کی تحریک التوا کے دو نوٹسوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اسپیکر نے پیر کو ایوان کو بتایا”اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اس لیے نوٹس کو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قاعدہ 58 (7) (جس میں کہا گیا ہے) کے مطابق یہ تحریک ایسے کسی بھی معاملے سے نہیں نمٹے گی جو ہندوستان کے کسی بھی حصے میں دائرہ اختیار رکھنے والی عدالت کے زیر سماعت ہو۔
کچھ ممبروں نے اسپیکر کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو قانون ساز اسمبلی نے مجوزہ وقف بل کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے اور ایوان کو اس کے مطابق کام کرنا چاہئے۔اس کے جواب میں اسپیکر نے ایوان کو مطلع کیا کہ اس وقت یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت نہیں ہے۔
آج صبح جب ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو بی جے پی کو چھوڑ کر حکمراں اور اپوزیشن کے کئی ارکان نے ایک بار پھر یہ مسئلہ اٹھایا۔
اسپیکر نے کہا”اگر وہ ایوان کو کام نہیں کرنے دے رہے ہیں، تو یہ ان کا اپنا نقصان اور عوام کا نقصان ہے کیونکہ (بجٹ سیشن کے) آخری تین دن نجی ارکان کی قراردادوں اور بلوں کے لئے تھے اور 8-8 توجہ دلاو¿ تحریکوں (پیر اور منگل) کے علاوہ عوامی اہمیت کے 40 سے 50 سوالات تھے۔
اسپیکر نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو اس مقصد کےلئے کام کرنا چاہئے جس کے لئے انہیں عوام نے اسمبلی میں بھیجا ہے۔
ان کاکہنا تھا”لوگوں کو ہم سے بہت زیادہ امیدیں ہیں اور ہمیں ان کی امنگوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میرے فیصلے (سوموار) کے بعد انہیں اسے قبول کر لینا چاہیے تھا۔ میں ان کے اعتماد کی وجہ سے وہاں ہوں اور اگر وہ (میرے فیصلے) کو قبول نہیں کر رہے ہیں تو یہ ان کا نقصان اور عوام کا نقصان ہے“۔
اسپیکر نے کہا کہ منگل کو کچھ ارکان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک وقف کے معاملے میں نوٹس جاری نہیں کیا ہے اور اس لئے ایوان اس معاملے پر بحث کرسکتا ہے اور ایک قرارداد منظور کرسکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ رول 58 (9) واضح طور پر کہتا ہے کہ پارلیمنٹ میں منظور شدہ قانون سازی پر اسمبلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس قانون کو صرف پارلیمنٹ یا عدلیہ ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ (ایجنسیاں)