نئی دہلی///
سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ وہ وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵کی صداقت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر بروقت پر غور کرے گی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے کچھ عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپِل سبل اور اے ایم سنگھوی کی طرف سے جلد سماعت کیلئے’خصوصی ذکر‘ کئے جانے کے بعد درخواست پر بروقت غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متعلقہ بل منظور ہونے کے بعد پانچ اپریل کو نئے قانون کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری مل گئی۔
وقف (ترمیمی) بل (پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیاتھا، لیکن اس وقت صدرجمہوریہ کی منظوری نہیں ملی تھی) کے جواز کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ عرضی داخل کرنے والوں میں کانگریس ایم پی محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور ایم پی اسد الدین اویسی اور دہلی سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان شامل ہیں۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، جمعیۃ علماء ہند، سمستا کیرالہ جمعیت العلماء جیسی تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ میں رٹ عرضیاں دائر کی ہیں۔
درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایکٹ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی ایک خطرناک سازش ہے ۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ ترمیم وقف کی مذہبی نوعیت کو بھی مسخ کرے گی اور وقف اور وقف بورڈ کے نظم و نسق میں جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔
ان کی درخواستوں میں عدالت عظمیٰ سے اس ایکٹ کو غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل۱۴‘۱۵‘۲۱‘۲۵‘۲۶؍اور۳۰۰ اے اے کی خلاف ورزی قرار دینے کی ہدایت بھی مانگی گئی ہے ۔ درخواستوں میں جواب دہندہ مرکزی حکومت اور وزارت قانون و انصاف کو اس کے التزامات کو نافذ کرنے یا نافذ کرنے سے روکنے کا حکم دینے کی اپیل کی گئی ہے ۔
اس دوران پارلیمنٹ میں حالیہ دنوں میں پاس کئے گئے وقف ترمیمی قانون مسلمانوں بنانے والا قانون قرار دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اس قانون میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے جس سے وقف بورڈ کو مضبوط اور بہتر بنانے میں مدد مل سکے ۔ یہ بات انہوں نے آج یہاں جماعت اسلامی کے میڈیا ہال میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
حسینی نے کہا کہ حکومت دعوی کررہی ہے کہ اس نے وقف بورڈ کو بہتر بنانے کے لئے قانون میں ترمیم کی ہے لیکن کس طرح موجودہ قانون سے وقف بورڈ بہتر انداز میں کام کرے گا یہ بتانے سے قاصر ہے ۔ انہوں نے اس قانون کو مسلمانوں کو نشانہ بناکر ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آئین کے بھی خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بدعنوانی کا معاملہ ہے تو ہر جگہ بدعنوانی ہے تو ہر شعبے کو کلکٹر کے حوالے کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی سزا کم کرنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ سخت سزا دینے ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے قانوں کی شقیں وقف بورڈ کو کمزور کرنے والی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسے اقلیتی حقوق کے لیے ایک سیاہ باب کے طور پر جانا جائے گا۔ یہ قانون ملک میں مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے ۔ مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ ۱۹۹۵میں ترمیم کرکے اس قانون کو تیار کیا ہے جس سے وقف املاک کے انتظام میں حکومتی مداخلت کا راستہ ہموار ہوگیا ہے ۔ان کاکہنا تھا’’ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل۱۴‘۲۵‘۲۶؍اور۲۹کے خلاف ہے ۔ اس بل پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں برسراقتدار پارٹی کی طرف سے کئی گمراہ کن دلائل پیش کیے گئے ، کہا گیا کہ وقف بورڈ چیریٹی کمشنر کی طرح ہے جبکہ یہ دعویٰ قطعی غلط ہے ۔ اس کی نوعیت کسی چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے ۔ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں جس میں ان اوقاف کی دیکھ ریکھ کرنے اور انتظامات سنبھالنے کا مکمل اختیار متعلقہ مذہبی طبقات کے افراد کو حاصل ہے‘‘ ۔
حسینی نے کہا کہ حکومت نے وقف املاک میں بد انتظامی اور قانونی تنازعات کو اس ترمیم کی اصل وجہ بتایا ہے ۔ مگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں کی ۔ اس کے بجائے غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے اور حکومت کے نامزد افسران کو اختیارات منتقل کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرکاری حکام اور افسروں کی مداخلت سے بدعنوانی اور بد انتظامی میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قانون کو مسلم اداروں کو کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے ۔