’وہاٹس ایپ یونیورسٹی پوسٹس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، جو ہم میں سے کچھ لوگوں کو موصول ہوئی ہیں‘
جموں//
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقہ کی اصطلاح کے استعمال پر واک آؤٹ کرنے پر اپوزیشن ارکان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ خطہ اس وقت تک ایک ہی رہے گا جب تک پارلیمنٹ اس کی ریاست کا درجہ بحال نہیں کرتی۔
جموں و کشمیر اسمبلی نے جموں و کشمیر گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) ایکٹ۲۰۱۷ میں ترمیم کیلئے ایک بل منظور کیا جس پر پیپلز کانفرنس کے رکن سجاد غنی لون نے واک آؤٹ کیا اور الزام عائد کیا کہ بل کو ایوان کی طرف سے مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ دینے کی توثیق کرنے کے مترادف ہے۔
واک آؤٹ کا جواب دیتے ہوئے عبداللہ نے کہا’’صرف اس لئے کہ ہم نے یہاں’یونین ٹریٹری‘ کا ذکر کیا ہے اور کچھ اور نہیں، اس سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، جب تک ہندوستان کی پارلیمنٹ ہماری ریاست کا درجہ بحال نہیں کرتی، ہم ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ واک آؤٹ سے مقصد میں مدد نہیں ملتی ہے۔’’ ہمیں وہاٹس ایپ یونیورسٹی پوسٹس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، جو ہم میں سے کچھ لوگوں کو موصول ہوئی ہیں‘‘۔
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ ہمیں جموں و کشمیر کے لوگوں کو ریاست کا درجہ واپس دلانا ہوگا۔ ’’انشاء اللہ ہم اسے بحال کریں گے۔ لفظ ’یو ٹی‘ کو ہٹانے سے ہماری حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ ہم یو ٹی ہیں چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ یہ حکومت مرکز کے زیر انتظام علاقے کے طور پر حکومت کرتی ہے‘‘۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے وحید پرہ نے بھی یونین ٹریٹری کا درجہ ملنے کی توثیق پر تشویش کا اظہار کیا۔
اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا’’اس ایوان کے ذریعہ اب تک جو بھی کام چلایا گیا ہے وہ مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کے نام سے ہوا ہے۔ فنانس بل کی منظوری کے دوران میں نے کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے بارے میں بار بار ’یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر‘کا ذکر کیا۔ سجاد نے اس وقت واک آؤٹ کیوں نہیں کیا؟ اپنی گرانٹ کے دوران، میں نے ’یونین ٹیریٹری‘کا بھی ذکر کیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام ارکان نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے تحت حلف لیا اور اس کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔
عمرعبداللہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی حکومت ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔’’ ہم نے اسے وزیر اعظم کو پیش کیا۔ میں نے اسے سونمرگ کی تقریب کے دوران ان کے ساتھ اٹھایا تھا۔ میں جب بھی دہلی جاتا ہوں تو یہ بات اٹھاتا ہوں کہ جموں و کشمیر کے لوگ مرکز کے زیر انتظام علاقے کا درجہ پسند نہیں کرتے اور ریاست کا درجہ بحال کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
نیشنل کانفرنس کی قیادت والی حکومت کی جانب سے بجٹ سیشن کا پہلا بل سنیچر کو سریندر کمار چودھری نے عبداللہ کی طرف سے پیش کیا، جو وزارت خزانہ کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
بحث کے دوران لون نے ’مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر‘ لفظ کے استعمال پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ایوان کی طرف سے جموں و کشمیر کی حیثیت کی توثیق کی علامت ہے۔ ان کاکہنا تھا’’میں اس میں شراکت دار نہیں بنوں گا‘‘۔لون نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
واک آئوٹ کے بعد سجاد نے’ایکس‘پر اپنے ایک طویل پوسٹ میں کہا’’آج میں نے اسمبلی سے واک آئوٹ کیا جب حکومت نے ’گڈز اینڈ سروسز ایکٹ‘کے سیکشن۲میں ترمیم کیلئے بل پیش کیا، اس بل کا مقصد جے اور کے ریاست کے بجائے کے یو ٹی کا لفظ شامل کرنا تھا‘‘۔
لون نے کہا’’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس بل کی منظوری جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری کی حیثیت کی توثیق کے مترادف ہے ، میں نے احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن جموں و کشمیر کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو جو بھاری مینڈیٹ دیا ہے ،اس کے پیش نظر میری آواز سنائی نہیں دی جس کے بعد میں نے واک آئوٹ کیا‘‘۔
ان کا سوالیہ انداز میں کہنا ہے’’کیا انہوں نے اسمبلی سے پوچھا کہ دفعہ ۳۷۰کو کب ختم کیا گیا، کب دفعہ۳۵؍اے کو ختم کیا گیا تھا اور کب ریاست جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری میں شامل کیا گیا تھا‘‘۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے اپنے پوسٹ میں کہا’’یہ لوگ اب اسمبلی سے کیوں کہہ رہے ہیں کہ وہ غیر فعال طور پر اس کی توثیق کرے جس کی بالآخر تاریخ جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری میں منتقل کرنے کے عمل کی فعال توثیق کے طور پر تعبیر کرے گی‘‘۔
لون نے کہا’’انتخابات سے پہلے کی پوری داستان ۵؍اگست۲۰۱۹کے تباہ کن واقعات کو ختم کرنے کے ارد گرد تھی اور ہمارا خیال یہ تھا کہ اسمبلی۵؍اگست کے تمام اقدامات کو مسترد کرنے والی قراردادیں غیر واضح طور پر پاس کرے گی‘‘۔
ان کا کہنا ہے’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو واضح، جامع اور غیر مبہم طور پر منظور کی گئی ہو‘‘۔انہوں نے کہا’’قانون بنانے یا ۵؍اگست ۲۰۱۹کے واقعات کو کالعدم کرنے کا اسمبلی کا اختیار اہم نہیں ہے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسمبلی سے عوام کی آواز کیا نکلتی ہے ‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے صدر نے کہا’’ہمیں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے اور جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ انصاف نہیں کرتی ہیں۔‘