جموں کشمیر کی اسمبلی میں حکمران جماعت نیشنل کانفرنس اور کچھ اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان کے مطالبے کے بعد اسپیکر‘ عبدالرحیم راتھر نے جل جیون مشن (جے جے ایم) میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے ایک ہاؤس کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے ۔
اسپیکر نے کہا کہ بجٹ اجلاس کے آغاز سے ہی کئی اراکین اسمبلی کی جانب سے ایوان کی کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے۔انہوںنے کہا کہ ایوان سپریم ہے اور جے جے ایم میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے ہاؤس کمیٹی کی تشکیل میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس کمیٹی کے ذمے کیاہو گا اور اسے یہ تحقیقات کتنی مدت میں مکمل کرنی ہو گی ۔
جے جے ایم میں مبینہ کرپشن کا اعتراف اسمبلی میں بی جے پی کے ممبران اسمبلی بھی کرتے آئے ہیں اور جاری بجٹ اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے اس کی جانب نشاندہی بھی کی ۔
جے جے ایم میں کرپشن پر سے پردہ جموں کشمیر میں تعینات ایک سینئر بیوروکریٹ‘اشوک پرمار نے اٹھایا تھا ۔پرمار نے جولائی۲۰۲۳ میں مرکزی ہوم سکریٹری اجے کمار بھلا کو دی گئی اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ کشمیر ڈویڑن کے جل شکتی ڈپارٹمنٹ کے چیف انجینئر نے غیر جے جے ایم اسکیم کے تحت موجودہ معاہدے کی بنیاد پر۶۹۰ کروڑ روپے میں لوہے کے پائپوں کی فراہمی کے لئے ٹینڈر جاری کیے تھے۔ ٹینڈر جنوری ۲۰۲۲ میں جاری کیا گیا تھا اور غیر جے جے ایم وضاحت کے تحت جون۲۰۲۲ میں چھ ماہ کے وقفے کے بعد آرڈر دیئے گئے تھے۔
’ہر گھر میں جل‘ کے مشن کے تحت ۲۰۱۹ میں شروع کی گئی ۶۰ء۳ لاکھ کروڑ مالیت کی اس اسکیم کا مقصد جموںکشمیر کے دیہات کے ہر گھر میں نل کے ذریعے ۲۰۲۴ تک پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا تھا ‘ گرچہ اس ضمن میں بڑی پیش رفت بھی حاصل کی گئی ہے اور بہ۲۳ء۱۹ لاکھ دیہی گھرانوں میں سے ۵۹ء۱۵ لاکھ گھرانوں کو صاف پانی مہیا کرایا گیا ‘ لیکن ابھی بھی لاکھوں گھرانے پانی کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔
اسمبلی کے اندر اور باہر بھی یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ حکومت ۲۰۱۹ کے بعد سے سرکاری محکموں میں ہوئے کرپشن کے بارے میں معلومات فراہم کرے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ گزشتہ چھ سالہ بیوروکریٹوں کی حکمرانی کے دوران دعوؤں کے برعکس کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ۔
اور یہ مطالبا ت بادی النظر میں صحیح بھی نظر آتے ہیں کیونکہ جموں و کشمیر کے انتظامی نظام میں بدعنوانی کی گہرائی کو اجاگر کرنے والے ایک چونکا دینے والے انکشافات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ جموں و کشمیر اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) کے مطابق ایک آئی اے ایس افسر سمیت ۹۰ سینئر افسران کو بدعنوانی سے متعلق مختلف ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے۔
اے سی بی کے ریکارڈ کے مطابق، ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۴ کے درمیان بدعنوانی کے کل ۵۱۵ معاملے درج کیے گئے ہیں، جن میں کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (کے اے ایس) کے ۸۹؍افسران اور انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کا ایک افسر شامل ہے۔
یہ اعداد و شمار ایک آر ٹی آئی سوال کے جواب میں سامنے آئے ہیں جس میں اس مدت کے دوران بدعنوانی کے معاملوں میں ملوث افسروں کی تعداد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پانچ سالوں میں درج کئے گئے ۵۰۰ سے زیادہ معاملوں میں سے صرف۱۹ کو دوبارہ نمٹایا گیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے انتظامیہ کے اندر گہرے مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے، جو حکمرانی پر عوام کے اعتماد کو ختم کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سزا کی کم شرح بدعنوان افسروں کو مؤثر طریقے سے لانے میں اے سی بی کی نااہلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
عام لوگوں پر کرپشن کا اثر عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کے ناقص معیار میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جب سرکاری ٹھیکے رشوت دینے والی کمپنیوں یا کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں غیر معیاری تعمیرات، ناکافی خدمات اور حفاظتی معیارات پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔کرپشن حکومت اور اس کے اداروں پر شہریوں کے اعتماد کو بھی کمزور کرتی ہے۔ جب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ سرکاری اہلکار بدعنوان اور خود غرض ہیں تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور جمہوری عمل سے کٹ جاتے ہیں۔
جموں کشمیر کو ایک طویل عرصے بعد جمہوری طور پر منتخبہ ایک حکومت ملی ہے ۔یہ اس حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں نے اس کو اپنا قیمتی ووٹ دیکر اس پر جو بھروسہ اور اعتماد کیا ہے ‘ اس پر کسی قسم کی آنچ نہ آجائے ۔
یہ وزیر اعلیٰ‘عمرعبداللہ کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن سے پاک ایک صاف و شفاف انتظامیہ فراہم کریں ‘ لیکن ساتھ ہی ۲۰۱۹ سے اب تک سرکاری محکموں میں جو مبینہ کرپشن ہو ئی ہے اس میں ملوث افسران کی نشاندہی کرکے ان کیخلاف تحت قانون کارروائی کو یقینی بنایا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔
جے جے ایم میں ہوئیں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے اسپیکر نے ایک ہاؤس کمیٹی کے قیام کا اعلان تو کیا ہے‘ لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ کمیٹی صاف و شفاف انداز میں تحقیقات کر کے کروڑوں روپے کی اس اسکیم ‘ جس کا بنیادی مقصد لوگوں کو گھروں تک صاف پانی فراہم کرنا تھا ‘ کی نشاندہی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے ۔
اگر وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو تے ہیں تو ایک تو جموں کشمیر کے لوگوں کا ان کی حکومت پر سے بھروسہ اٹھ جائیگا اور ساتھ ہی کرپشن سے پاک و صاف حکمرانی فراہم کرنے کے ان وعدے کی سنجیدگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے ۔