ہوائی سفر نے دنیا کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے طریقے میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور عالمی تجارت، سیاحت اور ثقافتی تبادلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نسبتاً کم وقت میں لمبے فاصلے طے کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ، ہوائی سفر نے جغرافیائی خلا کو پر کیا ہے ، معاشی ترقی ، تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا ہے۔
ہوائی سفر کے ساتھ ، لوگ نئی منزلوں کی تلاش کرسکتے ہیں ، مختلف ثقافتوں کا تجربہ کرسکتے ہیں ، اور دنیا بھر میں دوسروں کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہوائی سفر نے سیاحت کی ترقی میں بھی سہولت فراہم کی ہے، آمدنی پیدا کی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کیلئے ملازمتیں پیدا کی ہیں۔
کشمیر میں ایک سیاحتی مقام ہے اور شاید یہی اس کا قصور بھی ہے جو سرینگر تک پہنچنے یا یہاں سے جموں ‘ دہلی یا ملک کے دیگر حصوں تک ہوائی جہاز کا سفر کرناعام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی ہے ۔
دہلی اور جموں سے سرینگر تک ہوائی سفر ایک عام آدمی کیلئے ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے ۔ سال کے بارہ مہینوں ان دونوں سیکٹروں کی آنے جانے کی ہوائی ٹکٹوں کی قیمتیں آسمان کو چھوتی رہتی ہیں ‘ جس نے مسافر وں کو ایک مشکل صورتحال سے دو چار کردیا ہے ۔
دہلی سے سرینگر تک کا ہوائی سفر ڈیڑھ گھنٹے اور جموں سے ۲۵ منٹ کا ہے‘ اور اس مختصر سے سفر کیلئے ہوائی ٹکٹ بالترتیب ۲۰ہزار اور ۱۲ ہزار روپے تک میں فروخت کی جا رہی ہے ۔اس کے مقابلے میں ملک کے دوسرے سیکٹروں جہاںہوائی سفر کا دورانیہ ان دو سیکٹروں سے کہیں بڑا ہے‘ کرایہ کی شرح نصف سے بھی کم ہے ۔
اس صورتحال نے لوگوں کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے ۔ خاص کر طلبا اور مریضوں کو جنہیں سرینگر سے جموں یا دہلی یا پھر ملک کے کچھ دوسرے حصوں میں جانا پڑتا ہے یا وہاں سے آنا پڑتا ہے ۔ اس امر کی بار بار نشاندہی کے باوجود بھی اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی قابل قبول وضاحت سامنے آ رہی ہے کہ ان دو سیکٹروں کے مسافروں کو ائر لائنز دو دوہاتھوں سے کیوں لو ٹ رہی ہیں ‘انہیں ائر لائنز کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔
ماہرین کا مانان ہے کہ مہنگی ٹکٹوںکی کئی وجوہات ہیں جن میں محدود مسابقت، زیادہ مانگ اور جموں،سرینگر قومی شاہراہ کی بندش جیسے عوامل شام ہیں‘جن کی وجہ سے مسافروں کو اپنی جیبوں سے زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔
سیاحوں کے رش میں اضافہ، خاص طور پر مصروف موسم کے دوران، اور خراب موسم کی وجہ سے جموں،سرینگر قومی شاہراہ کی بندش، زیادہ مانگ میں اضافہ کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہوائی کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرینگر مٹھی بھر ائرلائنز پر منحصر ہے، جس کی وجہ سے جہاں ائرلائنز اجتماعی طور پر کرایوں میں اضافہ کرتی ہیں، جس سے مسافروں کے پاس بجٹ دوست آپشن نہیں رہ جاتے ہیں۔
یہ الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ ائر لائن کے عملے کی جانب سے ٹکٹنگ ایجنٹوں کو پیشگی بلک ٹکٹوں کی ڈرائی اور آف لائن فروخت کی جاتی ہے جو کہ اسٹینڈنگ قواعد اور طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے جس سے قیمتوں میں ہیرا پھیری ہوسکتی ہے۔
ہوائی کرایوں کے ضابطے کے حوالے سے حکومت کی موجودہ حکمت عملی نے اس مسئلے کو حل نہیں کیا ہے۔
وادی کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی واحد شاہراہ جموں سرینگر قومی شاہراہ کی بندش نے مسافروں کو ہوائی سفر پر بہت زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کردیا ہے ، جس سے مانگ اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اس بات کی امید پیدا ہو ئی تھی کہ سرینگر کو کٹرا تک ریلوے لائن سے جوڑنے کے ساتھ ہی لوگوں کو سفر کرنے کا ایک سستا متبادل فراہم ہو گا لیکن یہ ایسا انتظار ہے جو ختم ہونے کا نام نہیںلے رہا ہے ۔
اس ریلوے لائن پر سنگلدان تک ٹرین جاتی ہے جسے کٹرا سے بھی ملایا دیا گیا ہے ۔ اس ٹریک کو مکمل کرکے ریلوے کی حفاظت سے جڑے عہدیداروں نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی ہے جس سے پیدا ہوئی تھی کہ اب جلد کشمیر ریل کے ذریعے کنیا کماری سے جڑ جائیگا ۔
لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹرین خدمات کا آغاز نہیں کیا جارہا ہے ۔ ریلوے کے وزیر بھی کہہ چکے ہیں کہ آغاز جلد کیا جائیگا ‘ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ وزیراعظم یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹرین کا افتتاح کریں گے ‘ لیکن یہ سب باتیں قیاس آرائیاں ہی ثابت ہوئیں۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد سرینگر جموں شاہراہ پر انحصار کررہی ہے لیکن فور لیننگ کی وجہ سے شاہراہ پر بعض ایسے مقامات ہیں جو پر معمول بارشوں کی وجہ سے پر خطر ثابت ہو رہے ہیں ۔ان مقامات پر زمین کھسکنے اور مٹی کے تودے گر آتے رہتے ہیںجس سے مسافروں کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
یہی ایک بات مسافروں کا ہوائی سفر پر مجبور کرتی ہیں ‘ جہاں انہیں ٹکٹ پر ایک خطیر رقم صرف کرنی پڑ رہی ہے ۔
کشمیر کی سیاحت سے جڑے لوگوں نے بھی ہوائی جہاز کی ٹکٹوںمیں آئے دن کے اضافے کو سیاحت کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے اور شرحوں کو اعتدال پر رکھنے کی تلقین کی ہے‘ لیکن اس مسئلہ کو ایڈیس نہیں کیا جا رہاہے۔
لوگوں کے پاس اب ایک ہی امید ہے اور وہ یہ کہ کب کشمیر ٹرین کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں سے مکمل طور پر جڑ جائیگا تاکہ یہ اس کیلئے ایک سستا ‘ قابل بھروسہ ‘ پائیدار اور محفوظ متبادل بن سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔