غزہ میں جنوری کے وسط میں شروع جنگ بندی ‘منگل کو سرائیل کے اس تباہ شدہ علاقے پر بمباری اور ۴۰۰ فلسطینیوں کی ہلاکت کے ساتھ ہی ختم ہو گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی غزہ کے تباہ حال لوگوں کی کم از کم پر امن ماہ صیام اور عید الفطر کی امیدیں بھی ختم ہو گئی ہیں ۔
اسرائیل کی غزہ پر بمباری بغیر کسی قانونی اور اخلاقی جواز کے ہیں ‘ کیونکہ جو رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں ‘ ان میں کہا جا رہا ہے نیتن یاہو سیاسی اور قانونی مشکلات سے توجہ ہٹانے کیلئے غزہ میں دو بارہ حملہ کررہے ہیں ۔
تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا پہلا مرحلہ اگر یکم مارچ کم وبیش کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کے باقی کے دو مراحل بھی کامیابی سے ہمکنار ہو تے ‘ضرورت اگر تھی تو تحمل کی تھی ۔
کہا جارہا ہے کہ جنگ بندی کے اگلے مرحلے کیلئے ہوئی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہو ئی ‘ بات چیت تعطل کا شکار ہوئی جس کے بعد قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امریکہ نے پہلے مرحلے میں توسیع کی تجویز پیش کی تھی تاکہ اسرائیلی یرغمالیوں کے علاوہ مزید فلسطینیوں کی رہائی عمل میںلائی جا سکے ۔لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو ئی کیوںکہ اسرائیل ایک تو تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہتا ہے اور ساتھ ہی وہ حماس کا مکمل خاتمہ بھی چاہتا ہے‘ جو ماہرین کے مطابق ایک ساتھ ممکن نہیں ہے ۔
غزہ پر ۱۴ ماہ کی اسرائیلی بمباری‘ جس میں زائد از ۴۴ہزار لوگ ہلاک ہو گئے ‘ لاکھوں زخمی اور غزہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوا‘ کے بعد جنگ بندی پر دونوں فریقوں کو راضی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔
لیکن جنوری کے وسط میں جب جنگ بندی ہو ئی تو فلسطینیوں کے علاوہ دنیا کے امن اور انصاف پسند لوگوں نے راحت کا سانس لیا تھا ۔ ان میں ایک امید پیدا ہو ئی تھی کہ اب فلسطینیوں ‘ جن میں معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں ‘ کا مزید خون نہیں بہے گا۔
لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نے غزہ پر بمباری بحال کرنے ان امیدوں کو ختم کردیا ۔ نیتن یاہو کے اس فیصلے نے واضح کردیا کہ وہ امن میں یقین نہیںرکھتا ہے ۔اسے معصوم فلسطینیوں کے جان و مال کی کوئی پروا نہیں ہے‘ اگر ہو تی تو وہ صبر وتحمل سے کام لے کر جنگ بندی کیلئے تعطل کا شکار مذاکرات کو ایک اور موقع دیتا ‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور بغیر کسی جواز اور اشتعال کے اس نے منگل کو غزہ پر بمباری شروع کردی اور پہلے ہی دن ۴۰۰ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کردیا ۔
غزہ پر دو بارہ حملوں کے ساتھ ہی اسرائیل نے حماس کے پاس یرغمال بنائے گئے متعدد اسرائیلیوں کی رہائی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ حماس کاکہنا ہے کہ حملے اسرائیلی یرغمالیوں کی سزائے موت کے مترادف ہے ۔
اسرائیلی حملوںکے ردعمل میں اگر حماس نے کسی قسم کی جوابی کارروائی کی تو اس سے خطے میں امن کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے ۔اور یوں لاکھوں فلسطینی‘جو گزشتہ دو ماہ میں بغیر کسی خوف و خطر کی زندگی گزارہے تھے‘ ان پرایک بار پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔
پہلے ہی اسرائیل کی چودہ ماہ کی بمباری نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور ہلاکتوں کاہمالیہ کھڑا ہوا ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ حماس کے کیا سیاسی نظریات ہیں ‘ یہ اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں رہ رہے لوگوں کو مزید کسی مشکل میں نہ ڈالے یا ان کی مشکلیں مزید نہ بڑھا دے ۔
صورتحال کو مزید بگڑنے سے پہلے عالمی طاقتوں کو آگے آکر ان حملوں کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔کیوں کہ مغرب اور مسلم دنیا کی خاموشی اصل میں اسرائیلی حملوں کی تائید سمجھی جا رہی ہے۔
روس اور یوکرین اس وقت حالت جنگ میں ہیں ‘جو گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے ۔ دونوں ممالک میں جنگ رک جائے ‘ مزیدجانی اور مالی نقصان سے بچنے کیلئے امریکہ کچھ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر دونوں ممالک میں جنگ بندی کیلئے کوشاں ہے ۔ اس ضمن میں امریکہ صدر ‘ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کو روس کے صدر ‘ دلادمیر پوتن کے ساتھ فون پر ڈیڑھ گھنٹے طویل بات چیت کی ‘ جس میں اگرچہ جنگ بندی پر کوئی اتفاق نہیں ہوا لیکن ایک بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا اور ساتھ ہی یوتن نے یوکرین میں توانائی کی تنصیبات پر حملوں کو محدود کرنے سے اتفاق کیا ۔
امریکہ اگر دونوں ممالک میں جنگ روکنے کی کوشش کر سکتا ہے تو وہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو روکنے کیلئے بھی کردار کر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے ۔ اس کے ساتھ ہی حماس کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ۔ اسرائیلی یر غمالی وہ واحد کارڈ ہے ‘ جو حماس استعمال کر سکتا ہے ۔ حماس چاہتا اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے غزہ سے اسرائیل افواج کا مکمل انخلاء بھی ہو ہے جیسا کہ پہلے طے بھی ہوا تھا ۔لیکن ظاہر ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائی کا مقصد صرف حماس کا خاتمہ ہی نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو اس سے اپنے سیاسی اہداف بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ اسی لئے اس نے جنگ بندی کیلئے بات چیت کو مزید کوئی موقع دئے بغیر غزہ پر بمباری بحال کر دی ۔
کہتے ہیں کہ جنگ کو شروع کرنا آسان ہے ‘ جنگ کو ختم کرنا مشکل ہو تا ہے کیونکہ بڑی سے بڑی جنگ کا خاتمہ بھی مذاکرات کی میز پر ہی ہوا ہے ۔مذاکرات کا مطلب صبر‘ تحمل اور تدبر سے کام لینا ہے جس کیلئے نیتن یاہو تیار نظر نہیں آ رہا ہے ۔ لیکن حماس کو بھی یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے اس کا اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے کوئی ایک غلط قدم اس پورے خطے کو مزید تباہی اور بربادی میں دھکیل سکتا ہے ۔