سرینگر//
پیپلز کانفرنس(پی سی) کے صدر اور رکن اسمبلی سجاد لون نے موجودہ ریزرویشن پالیسی کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی کا پورا تصور کشمیری بولنے والی آبادی اور کشمیر میں رہنے والے ایس ٹی یا ای ڈبلیو ایس کے خلاف ہے ۔
لون نے کہا’’کوٹے کی تقسیم میں جو نقصان کشمیر کو ہے وہ پہلے لگائے گئے اندازے سے کہیں زیادہ ہے ‘‘۔
پی سی صدر نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کو’ایکس‘پر اپنے ایک طویل پوسٹ میں کیا۔
لون نے کہا’’یہ علاقائی طور پر حیران کن ہے ،ریزرویشن توقع سے زیادہ ہے ، میں نے ریزرویشن سے متعلق کچھ سوالات کیے تھے اور یہ سوالات زیادہ تر تمام زمروں میں علاقائی تفاوت پر مرکوز تھے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’خطہ کے طور پر کشمیر، جموں خطے سے بہت پیچھے ہے کوٹے کی تقسیم میں جو کشمیری بولنے والی آبادی کو نقصان ہے وہ پہلے سے کئے جانے والے اندازے سے زیادہ ہے‘‘۔انہوں نے کہا ریزرویشن کا پورا تصور کشمیری بولنے والی آبادی اور کشمیر میں رہنے والے ایس ٹی یا ای ڈبلیو ایس کے خلاف ہے ۔
یکم اپریل۲۰۲۳سے جموںکشمیر میں جاری کی جانی والی کیٹگری سرٹیفکیٹس کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے سجاد لون نے کہا کہ اس میں بھی واضح طور پر امتیاز برتا گیا ہے ۔
پی سی صدر نے کہا’’جموں میں۶۷ہزار ایک سو ۱۱شیڈول کاسٹ (ایس سی) سٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں ایک بھی ایسی سرٹیفکیٹس جاری نہیں کئے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح جموں میں۴لاکھ۵۹ہزار۴سو۹۳شیدول ٹرائب (ایس ٹی) سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں صرف۷۹ہزار۸سو۱۳یہ سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں۔
جموں میں اقتصادی طور پر کمزور طبقہ (ای ڈبلیو ایس) کی ۲۷ہزار۴سو ۲۰سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں۲ہزار۲سو ۷۳؍ای ڈبلیو ایس سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔
جموں میں حقیقی لائن آف کنٹرول (اے ایل سی) کی۲سو ۶۸سرٹیفکیٹس جاری کیئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں ایسی صرف۱۶ سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں۔
جموں میں بین الاقوامی سرحد (آئی بی) کی۵سو۵۱ سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں ایسی کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کی گئی ہے ۔
جموں میں پسماندہ علاقے کے رہائشی (آر بی اے ) کی ایک ہزار۳سو۷۹سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ کشمیر میں صرف ایک ہزار ۳سو۲۹آر بی اے سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں۔
موصوف رکن اسمبلی نے کہا’’یہاں تک کہ کشمیر میں رہنے والی ایس ٹی آبادی کو بھی نقصان ہے وہ ایس ٹی پول کے کل درخواست دہندگان کا محض ۱۵فیصد بنتے ہیں‘‘۔
پی سی صدر نے کہا’’آر بی اے کیٹگری تقریباً ایک جیسی ہے لیکن جب آپ آبادی کو ایڈجسٹ کرتے ہیں تو یہ کم ہوتا ہے کشمیر کی آبادی تقریباً۷فیصد زیادہ ہے اور آر بی اے کے تحت علاقے تقریباً اسی تناسب سے ہیں پھر بھی تعداد کے لحاظ سے وہ جموں سے پیچھے ہیں‘‘۔
ان کا پوسٹ میں مزید کہنا ہے ’’حکومت کی طرف سے۱۰دسمبر ۲۰۲۴کو شکایات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے پاس رپورٹ جمع کرانے کے لیے کوئی مخصوص ٹائم لائن نہیں ہے جبکہ ہمیں بتایا گیا کہ اس کے پاس۶ماہ کی ٹائم لائن ہے ۔‘‘