’بجٹ احتیاط سے تیار کی ہے ‘یہ بڑے پیمانے پر افراط زر کا باعث نہیں بنے گا، محبت کے خط ہر ایک کیلئے ہیں ‘
جموں//(نمائندہ خصوصی)
وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے آج بجٹ کو جموں وکشمیر کے مضبوط مستقبل کی بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ان کی حکومت نے کبھی نہیں کہا کہ وہ پہلے بجٹ میں ہی سب کچھ پورا کرے گی۔
وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بجٹ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کیلئے ایک’محبت کا خط‘ ہے۔
ان کی حکومت کے بجٹ پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’اگر میں واقعی مایوس ہوتا تو میں کہتا کہ زخم اتنے گہرے ہیں کہ موت ہی واحد حل ہے، یا یہ کہ اس کا کوئی حل دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اس کے بجائے، میں نے زخموں کو تسلیم کیا اور کہا کہ جہاں ضرورت ہوگی ہم وہاں مرہم لگائیں گے‘‘۔
اپوزیشن کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ان کی تقاریر کو ’محبت کے خطوط‘ کا لیبل لگایا جا رہا ہے‘عمر عبداللہ نے کہا’’جب بھی میں بولتا ہوں، وہ اسے محبت کا خط کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، میں کیا کر سکتا ہوں؟ اگر میری بجٹ تقریر کو بھی محبت کا خط کہا جا رہا ہے تو ایسا ہی ہو‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا’’جی ہاں، یہ بی جے پی کے لیے محبت کا خط ہے۔ یہ کانگریس کے نام محبت کا خط ہے۔ یہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس، سی پی آئی ایم اور آزاد امیدواروں کے لئے محبت کا خط ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک محبت کا خط ہے‘‘۔
اپنے جذبات کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’آپ محبت کا خط کیوں لکھتے ہیں؟ یہ محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہے اور ہاں، میں جموں و کشمیر کے لوگوں سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ میں ان کی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مجھے محبت کا خط لکھنے میں شرم نہیں آتی۔ اگر خدا نے مجھے زندہ رکھا تو میں اگلے پانچ سال تک یہ محبت کا خط لکھتا رہوں گا‘‘۔
ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہ ان کی تقریر مایوس کن انداز میں شروع ہوئی تھی‘ وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے صرف سچ کہا ہے۔’’جسم میں زخم ہیں، اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ شفا بخش بام کو کہاں لگانا ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی مالی مشکلات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے پاس کافی فنڈز ہوتے تو آج ہماری صورتحال مختلف ہوتی۔ کیا میرے پاس بجلی کے تمام منصوبوں کو سنبھالنے اور فوری طور پر کام شروع کرنے کیلئے پیسے ہیں؟ نہیں۔ کیا میں ہر ایک کو مفت بجلی فراہم کر سکتا ہوں؟ نہیں۔ ہمارے پاس۲۴ گھنٹے بلاتعطل بجلی کو یقینی بنانے کیلئے بجٹ بھی نہیں ہے‘‘۔
بجٹ کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا’’ایک کہاوت ہے کہ’اپنے کپڑے کے مطابق اپنا کوٹ کاٹ لو‘۔ ہم نے یہی کیا ہے۔ ہم نے غیر حقیقی وعدے نہیں کیے۔ ہم نے مبالغہ آرائی نہیں کی‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ حکومت نے یہ بجٹ احتیاط سے تیار کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی اقدامات سے عوام پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ یہ بجٹ بڑے پیمانے پر افراط زر کا باعث نہیں بنے گا۔
اپنی پارٹی کے انتخابی وعدوں کے بارے میں انہوں نے کہا’’ہم انہیں کسی اور سے بہتر یاد کرتے ہیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو پورا کرنے کے لئے پرعزم ہیں‘‘۔
بجٹ کو جموں و کشمیر کے مضبوط مستقبل کی بنیاد قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم پہلے بجٹ میں ہی سب کچھ پورا کریں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم ایک مضبوط بنیاد رکھیں گے۔ اس بجٹ کا مقصد لوگوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ ہم کچھ بھی نہیں بھولے ہیں۔ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے غریبوں کو ترجیح دینے کا جواز پیش کیا، اور کہا’’ہم نے غریب ترین لوگوں کی مدد کرکے شروعات کی۔ کیا ہم نے کوئی غلطی کی ہے؟ کیا ہمیں پہلے امیر ترین لوگوں کی مدد کرنی چاہیے تھی؟ جس طرح ایک گھر کی تعمیر کرتے وقت، آپ ایک مضبوط بنیاد سے شروع کرتے ہیں، ہم نے اسی طرح شروع کیا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ڈھانچہ شکل اختیار کرے گا‘‘۔
عمرعبداللہ نے حزب اختلاف کے بی جے پی رکن بلونت منکوٹیا پر بھی طنز کیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایک اوپننگ بلے باز کی طرح وہ پوری طرح تیار ہوکر میدان میں اترے، دستانے پہنے اور ہیلمٹ پہنا۔ لیکن جلد ہی، میں الجھن میں پڑ گیا۔ انہوں نے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا لیکن اس کے بجائے فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ بحث بجٹ پر تھی لیکن انہوں نے ۲۰ منٹ سیاسی گفتگو پر خرچ کیے اور بجٹ سے خطاب کرنے میں صرف ۵ منٹ صرف کیے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ گورنر کی تقریر کے بعد انہوں نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔’’لیکن جب میں نے آخر کار ایسا کیا، تو میں نے سنا کہ چیزیں تناؤ کا شکار ہو گئیں۔ بظاہر حزب اختلاف کی اہم جماعت کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی دہلی اور یہاں کے ان کے رہنماؤں نے بھی ہمیں بیانیہ تبدیل کرنے کی اجازت دینے کے لئے ان کی تنقید کی۔
انہوں نے جموں و کشمیر کی حمایت کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا۔ میں ان لوگوں کا شکریہ کیوں نہ ادا کروں جو ہماری حمایت کرتے ہیں۔ میں حمایت کے لئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔
اپنی حکومت کے بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس میں زیادہ تر فلاحی اقدامات کو شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بجٹ کی شروعات پسماندہ طبقوں کے لئے فوائد کو یقینی بنا کر کی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں امیروں سے شروعات کرنی چاہیے تھی؟
عمرعبداللہ نے کہا کہ اس بجٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی جانب سے بنایا گیا پہلا بجٹ ہے اور اسے پارلیمنٹ کے بجائے اسمبلی میں منتخب ارکان منظور کریں گے۔انہوں نے کہا’’اس پر پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ یہاں بحث ہوئی تھی۔ آپ (بی جے پی ممبران) سمیت سبھی نے اس پر بحث میں حصہ لیا ہے۔ اس کا فیصلہ اور منظوری یہاں منتخب ارکان کریں گے۔ ہم جموں و کشمیر کے وقار کو بحال کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر کا بجٹ مرکزی بجٹ پر بوجھ ہے لیکن یہ مکمل طور پر مرکز پر منحصر نہیں ہے۔
بجٹ کے مختلف اجزاء کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر مالی طور پر مرکز پر منحصر ہے ، لیکن خود کفالت کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’ ۳۵ہزارکروڑ روپے کے کاموں کے لیے ہمیں تنخواہ کے طور پر۷۰ہزارکروڑ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اگر۳۵ہزار کروڑ روپے کی مصنوعات بیچنے کے لئے ایک کمپنی کو۷۰ہزارکروڑ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں، تو کمپنی کیسے چل سکتی ہے؟‘‘