جموں/ 10 مارچ
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ ‘عمر عبداللہ نے رمضان کے مہینے میں منعقد ہونے والے گلمرگ فیشن شو کو لے کر جاری تنازعہ کے درمیان پیر کو کہا کہ ان کی حکومت سال کے کسی بھی مہینے میں اس طرح کے پروگرام کی اجازت کبھی نہیں دےتی۔
اس فیشن شو کو بہت سے لوگوں نے ’فحش‘ قرار دیا ہے اور اسمبلی میں احتجاج شروع کر دیا ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا”ہم پہلے ہی اس معاملے کی جانچ کا حکم دے چکے ہیں لیکن ابتدائی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک نجی ہوٹل میں ایک نجی پارٹی کی طرف سے منعقد کیا گیا چار روزہ نجی پروگرام تھا۔ یہ فیشن شو 7 مارچ کو منعقد کیا گیا تھا اور کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جو غلط نہیں ہیں“۔
گلمرگ میں فیشن شو اور کٹھوعہ ضلع کے بلاور علاقے میں تین شہریوں کی ہلاکت کے معاملے پر وقفہ سوالات کے پہلے آدھے گھنٹے تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد ایوان میں بیان دیتے ہوئے چیف منسٹر نے کہا کہ ارکان کی مایوسی اور تشویش حقیقی ہے۔
میر واعظ عمر فاروق نے اتوار کے روز کہا کہ سیاحت کے فروغ کے نام پر فحاشی برداشت نہیں کی جائے گی۔
ایکس پر ان کاکہنا تھا”بے رحم! رمضان کے مقدس مہینے میں #Gulmarg میں ایک فحش فیشن شو کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جس سے لوگوں میں صدمہ اور غصہ پایا جاتا ہے“۔
میرواعظ نے پوسٹ میں مزید کہا”صوفی، سنت ثقافت اور اپنے لوگوں کے گہرے مذہبی نقطہ نظر کےلئے مشہور وادی میں اسے کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے“؟
اس پوسٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چیف منسٹر نے کہا تھا کہ صدمہ اور غصہ پوری طرح قابل فہم ہے۔ ”میں نے جو تصاویر دیکھی ہیں وہ مقامی حساسیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں اور وہ بھی اس مقدس مہینے کے دوران“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میرا دفتر مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور میں نے اگلے 24 گھنٹوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔
عمرعبداللہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا”اس رپورٹ سے مناسب طور پر مزید کارروائی کی جائے گی“۔
اسمبلی میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جن لوگوں نے فیشن شو کا اہتمام کیا ہے انہوں نے اپنے ذہن کا استعمال نہیں کیا ہے، عوام کے جذبات کو نظر انداز کیا ہے اور اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی ہے کہ وہ اسے کہاں منعقد کر رہے ہیں اور اس کے وقت پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں اس طرح کا شو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد میری رائے ہے کہ یہ سال کے کسی بھی وقت نہیں ہونا چاہئے تھا“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس تقریب کے انعقاد میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”یہ ایک نجی پارٹی تھی، جس کا اہتمام ایک نجی ہوٹل میں کیا گیا تھا اور نجی طور پر دعوت نامے تقسیم کیے گئے تھے۔ حکومت سے کوئی اجازت نہیں لی گئی، حکومت سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا، کوئی سرکاری انفراسٹرکچر استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدیدار تقریب میں موجود تھا“۔
عمرعبداللہ نے کہا”اس سب کے باوجود، انتظامیہ سے کہا گیا تھا کہ اگر انکوائری قانون کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتی ہے، تو معاملے کو پولیس کے حوالے کریں جو اس کی تحقیقات کرے گی“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ اگر حکومت سے اجازت مانگی جاتی تو وہ اس طرح کے پروگرام کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ (ایجنسیاں)