جموں/۶مارچ
وزیرا علیٰ‘ عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں کشمیر کے آخری ڈوگرہ حکمران‘مہاراجہ ہری سنگھ کا جموں کشمیر کا نقشہ توڑمروڑ کر رکھا بلکہ ان کے پشتینی لوگوں کے حقوق کےلئے بنائے گئے قوانین کو بھی ختم کیا ۔
جمعرات کو اسمبلی میں ایل جی کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر ہوئی بحث کا جواب دیتے ہو ئے وزیر اعلیٰ نے نیشنل کانفرنس (این سی) پر جموں و کشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی توہین کرنے کا الزام لگانے پر بی جے پی رہنماو¿ں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں چیلنج کیا کہ وہ صرف ایک مثال دیں جب حکمراں جماعت یا کشمیر کی کسی دوسری پارٹی نے ڈوگرہ حکمران کی توہین کی ہو جبکہ بی جے پی بکھر گئی اور اس کی مسلم اکثریتی ریاست کا درجہ کم کیا۔
جموں و کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر (ایل او پی) اور بی جے پی لیڈر سنیل شرما کی جانب سے حکمراں پارٹی پر مہاراجہ کی توہین کا الزام عائد کرنے کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن پارٹی کو چیلنج کیا کہ وہ انہیں ایک بھی مثال دے جب آخری ڈوگرہ حکمران کی نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی اور کانگریس نے توہین کی ہو۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”آپ نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرکے اور ان کے قوانین کو ختم کرکے مہاراجہ کے نقشے کو توڑ مروڑ کررکھا‘خاص طور پر زمین اور نوکریوں سے متعلق جو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ بی جے پی یہ کہہ کر لداخ کی علیحدگی کا جواز پیش کر رہی ہے کہ یہ لداخ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔
ان کاکہنا تھا”کیا تم نے ان سے پوچھا ہے؟ کیا آپ نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ کرگل کے لوگ پہلے دن سے ہی اس فیصلے کے خلاف تھے۔ لداخ کے بدھ مت کے پیروکار جنہوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، آج ان کی رائے ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ساتھ بہتر پوزیشن میں تھے۔ وہ اپنے حقوق واپس حاصل کرنے کے لیے لیہہ سے دہلی تک پیدل چلے“۔
وزیراعلیٰ نے 13 جولائی 1931 کے شہیدوں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر اپوزیشن لیڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگرچہ ہمارے سیاسی نظریات مختلف ہیں لیکن وہ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کےلئے احترام کے مستحق ہیں اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے یہ اسمبلی تشکیل دی گئی۔
13 جولائی کو جموں و کشمیر میں 1931 میں سرینگر سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ مہاراجہ کے فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے 22 افراد کی یاد میں عام تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کے موقع پر 5 دسمبر کی تعطیلات کے ساتھ چھٹی کو لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ختم کردیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ ملک کے باقی حصوں میں آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور کوئی بھی انہیں غدار نہیں کہہ سکتا“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ 13 جولائی اور 5 دسمبر کو تعطیلات کا اعلان کیا جائے یا نہ کیا جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ لوگ ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنے آخری دور میں وہ چھٹیوں کی تعداد کو کم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہے تھے اور 5 دسمبر بھی ان کے ذہن میں تھا۔انہوں نے کہا ”ہم نے مہاراجہ کی وراثت کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ کیا ہم نے ڈوگرہ حکمرانوں کے نام پر کسی ادارے کا نام تبدیل کیا ہے؟