جموں کشمیر کے لوگ اب بھی مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں:وزیر اعلیٰ
’ہماری اور بی جے پی کی پالیسیاں بالکل مختلف ہیں‘ ہم بی جے پی کو اور نہ وہ ہمیں قبول کر سکتی ہے‘
سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر اعلیٰ‘عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ اگر جموں کشمیر کا ملک کے ساتھ الحاق مستقل ہے تو وہ شرائط اور فریم ورک جس نے الحاق کو ممکن بنایا وہ بھی مستقل ہیں۔ ایک عارضی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسرا مستقل ہے۔ یا تو دونوں عارضی ہیں یا دونوں مستقل ہیں۔
ایک ٹی وی انٹرویو وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰ کے ساتھ عارضی یا عبوری لفظ کا ایک سیاق و سباق جڑا ہوا ہے۔
عمر عبداللہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق مستقل تھا ، لیکن اسی طرح حالات اور فریم ورک بھی مستقل تھا جن کی وجہ سے الحاق ہوا ۔ آئینی دفعات کی منتخب تشریح کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ دونوں پہلوؤں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے ، بجائے اس کے کہ ایک کو مستقل اور دوسرے کو عارضی سمجھا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ جموں کشمیر کو مستقل بنانے کے لئے کیا ہونا تھا؟ نظام میں قبولیت؟ نہیں، جناب! اگر آپ اسے چھیڑنے جا رہے ہیں، تو پوری بات سن لیجئے ۔الحاق کے وقت جموں و کشمیر کے عوام سے کیا وعدہ کیا گیا تھا جس نے اسے عارضی اور عبوری بنا دیا؟یہ وعدہ استصواب رائے تھا‘‘۔
عمرعبداللہ نے وضاحت کی کہ الحاق کے وقت جموں و کشمیر کی حیثیت کو مکمل طور پر رسمی شکل نہیں دی گئی تھی اور یہ سمجھا گیا تھا کہ اس کے مستقبل کا تعین جمہوری طریقوں سے کیا جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الحاق کو حتمی تسلیم کر لیا گیا لیکن عمرعبداللہ نے اصرار کیا کہ اس سے متعلق فریم ورک میں کوئی تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر الحاق مستقل ہے تو وہ شرائط اور فریم ورک جس نے الحاق کو ممکن بنایا وہ بھی مستقل ہیں۔ ایک عارضی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسرا مستقل ہے۔ یا تو دونوں عارضی ہیں یا دونوں مستقل ہیں۔
عمرعبداللہ نے مرکزی حکومت پر جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی چن چن کر تشریح کرنے کا الزام عائد کیا۔ان کاکہنا تھا’’ہم دونوں کو مستقل کے طور پر دیکھتے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ الحاق مستقل ہے اور الحاق کی شرائط اور فریم ورک بھی مستقل ہیں۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ الحاق مستقل ہے جبکہ فریم ورک عارضی ہے۔ یہی ہماری سوچ میں فرق ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ کا یہ تبصرہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر جاری سیاسی بحث کے دوران سامنے آیا ہے، جسے ۵؍اگست۲۰۱۹ کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اگرچہ مرکزی حکومت کا استدلال ہے کہ اس اقدام نے خطے کو ہندوستان میں مکمل طور پر ضم کردیا ہے ، لیکن عمرعبداللہ اور دیگر اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے الحاق کے وقت کیے گئے تاریخی وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں۔
مباحثے کے دوران عمر عبداللہ ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہو ئے کہا کہ لوگ اب بھی مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ اب بھی مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔
عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کو ریاست کے لوگوں کے ساتھ غداری قرار دیا۔
۲۰۱۹ میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا۔ جموں و کشمیر کو دہلی کی طرز پر اسمبلی کے ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سال ۲۰۱۹ میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی۔ آرٹیکل ۳۷۰ کو ۲۰۱۹ میں ہٹا دیا گیا تھا۔ اب سال ۲۰۲۵ ہے۔ تب کہا گیا کہ یہ ایک عبوری مرحلہ ہے۔ اب پانچ سال گزر چکے ہیں۔ اب یہاں کیا عبوری مرحلہ ہے۔ منتقلی اب ہوئی ہے، ٹھیک ہے؟ اس وقت آپ کے پاس منتقلی کا مرکزی اصول تھا۔ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کو اب منتقلی کی ضرورت نہیں ہے۔
جب ان سے پوچھا کہ مرکز نے بھی کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو یقینی طور پر مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ اس پر عمر عبداللہ نے کہا کہ یو ٹی جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا’’ہماری اور بی جے پی کی پالیسیاں بالکل مختلف ہیں۔ نہ ہم بی جے پی کو قبول کر سکتے ہیں اور نہ ہی بی جے پی ہمیں قبول کر سکتی ہے۔ لیکن ریاست کی فلاح و بہبود کیلئے ہم مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بی جے پی کے ساتھ ہیں۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ مرکزی حکومت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے جموں و کشمیر کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا ہے۔
جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنانے کے سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ موجودہ نظام حکومت بکواس اور گھٹیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ریاست ایک مکمل ریاست تھی تو اس کی حیثیت مختلف تھی۔ آج ہم ریاست نہیں ہیں۔ یونین ٹیریٹری اور ریاست میں بہت فرق ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا۔ ’’ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر بڑے لیڈروں نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ایسے میں امید ہے کہ مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا‘‘۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ انڈیا الائنس کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کاکہنا تھا’’اگر کوئی لیڈر یہ کہتا ہے کہ یہ اتحاد صرف لوک سبھا انتخابات کے لئے تھا تو پھر ہمیں اپنے کام کو ملتوی کر دینا چاہئے۔ ایسے میں ۲۰۲۹ میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ۲۰۲۸ میں اس اتحاد پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اتحاد موجود ہے تو ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اسمبلی انتخابات اتحاد کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں کرنے سے نقصان ہو رہا ہے۔ یہ ہریانہ اور دہلی اسمبلی انتخابات میں دیکھا جاچکا ہے‘‘۔