سرینگر/25فروری
وزیر اعلیٰ‘عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ اگر جموں کشمیر کا ملک کے ساتھ الحاق مستقل ہے تو وہ شرائط اور فریم ورک جس نے الحاق کو ممکن بنایا وہ بھی مستقل ہیں۔ ایک عارضی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسرا مستقل ہے۔ یا تو دونوں عارضی ہیں یا دونوں مستقل ہیں۔
ایک ٹی وی مباحثے میں حصہ لیتے ہو ئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دفعہ 370 کے ساتھ عارضی یا عبوری لفظ کا ایک سیاق و سباق جڑا ہوا ہے۔
عمر عبداللہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق مستقل تھا ، لیکن اسی طرح حالات اور فریم ورک بھی مستقل تھا جن کی وجہ سے الحاق ہوا ۔ آئینی دفعات کی منتخب تشریح کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ دونوں پہلوو¿ں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے ، بجائے اس کے کہ ایک کو مستقل اور دوسرے کو عارضی سمجھا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ” جموں کشمیر کو مستقل بنانے کے لئے کیا ہونا تھا؟ نظام میں قبولیت؟ نہیں، جناب! اگر آپ اسے چھیڑنے جا رہے ہیں، تو پوری بات سن لیجئے ۔الحاق کے وقت جموں و کشمیر کے عوام سے کیا وعدہ کیا گیا تھا جس نے اسے عارضی اور عبوری بنا دیا؟یہ وعدہ استصواب رائے تھا“۔
عمرعبداللہ نے وضاحت کی کہ الحاق کے وقت جموں و کشمیر کی حیثیت کو مکمل طور پر رسمی شکل نہیں دی گئی تھی اور یہ سمجھا گیا تھا کہ اس کے مستقبل کا تعین جمہوری طریقوں سے کیا جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الحاق کو حتمی تسلیم کر لیا گیا لیکن عمرعبداللہ نے اصرار کیا کہ اس سے متعلق فریم ورک میں کوئی تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر الحاق مستقل ہے تو وہ شرائط اور فریم ورک جس نے الحاق کو ممکن بنایا وہ بھی مستقل ہیں۔ ایک عارضی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسرا مستقل ہے۔ یا تو دونوں عارضی ہیں یا دونوں مستقل ہیں۔
عمرعبداللہ نے مرکزی حکومت پر جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی چن چن کر تشریح کرنے کا الزام عائد کیا۔ان کاکہنا تھا”ہم دونوں کو مستقل کے طور پر دیکھتے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ الحاق مستقل ہے اور الحاق کی شرائط اور فریم ورک بھی مستقل ہیں۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ الحاق مستقل ہے جبکہ فریم ورک عارضی ہے۔ یہی ہماری سوچ میں فرق ہے“۔
وزیر اعلیٰ کا یہ تبصرہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر جاری سیاسی بحث کے دوران سامنے آیا ہے، جسے 5 اگست، 2019 کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اگرچہ مرکزی حکومت کا استدلال ہے کہ اس اقدام نے خطے کو ہندوستان میں مکمل طور پر ضم کردیا ہے ، لیکن عمرعبداللہ اور دیگر اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے الحاق کے وقت کیے گئے تاریخی وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں۔