تحریر:ہارون رشید شاہ
حالیہ دنوں میں کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر ہسپتال… سرکاری ہسپتال جانے اور وہاں رہنے کا موقع ملا…مریضوں کی تڑپ ‘تیمار داروں کی بے بسی ‘لواحقین کی گریہ زاری ‘کہیں خوشی تو کہیں غم دیکھنے کا موقع ملا … کسی کی آنکھ سے خوشی کے آنسو چھلکتے دیکھنے کا موقع ملا… اور کسی آنکھ کو اپنے کسی عزیز کے بچھڑنے کے غم میں خون کے آنسو بہاتے دیکھنے کا موقع ملا…ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری دیکھنے کا بھی موقع ملا…وہیں ایک چھوٹی سی دوائی کی ٹکیاں بھی ہسپتال میں دستیاب نہ دیکھنے کا بھی موقع ملا…ہسپتال کے صفائی کرم چاریوں کی ہسپتال اور اس کے واش روموں کو صاف رکھنے کی جد وجہد کو دیکھنے کا بھی ملا اور… اور لوگوں ‘ تیمار داروں کی جانب سے ان واش روموں میں گندگی پھیلانے ‘ انہیں گندہ کرنے کے نت نئے طریقے دیکھنے کا بھی موقع ملا …کچھ انسان اور مریض دوست اور قابل داکٹروں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا… ایسے ڈاکٹر جو فرض شناس ہیں‘ جو قابل ہیں ‘جن میں لگن ہے‘ مریضوں کا بہتر علاج کرنے کی خواہش ہے…مریضوں کے تئیں ان کی فکر وتشویش دیکھنے کا بھی موقع ملا اور… اور کچھ ایسے ڈاکٹر وں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا… جو اپنے دائیں بائیں سے بھی لاتعلق نظر آئے … جنہیں مریضوں کی فکر تھی اور نہ انہیں ان کی تڑپ‘ ان کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی…ایسے ڈاکٹر جو مریض کا علاج تو کررہے تھے… لیکن اپنا فرض سمجھ کر نہیں ‘ ڈیوٹی سمجھ کر نہیں بلکہ احسان سمجھ کر…جو مریضوں یا ان کے تیمار داروں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے ایک دو میٹھے بول بھی ادا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے… جو خود کو ایک الگ دنیا کے واسی سمجھتے تھے… اور مریض اور ان کے تیمار داروں کو کسی اور دنیا کی مخلوق گردانتے تھے… ایسی مخلوق جنہیں وہ اپنے برا بر سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھے…بلکہ انہیں ابتر اور خود کو برتر سمجھنے کی سوچ رکھتے ہیں… اور ایسی ہی سوچ رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے بڑے ترش لہجے میںمڑ کر ہمیں کہا…’ ایک تو ہم آپ کو عزت دیتے ہیں اور آپ ہیں کہ ……‘‘۔ڈاکٹر کی یہ بات اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ڈاکٹر کب علاج اور دوا دینے کے ساتھ ساتھ’عزت‘ بھی دینے لگے کہ … کہ ہمارا یمان ہے کہ … کہ عزت و ذلت دینا اللہ کے ہاتھ میں … کسی اور کے ہاتھ میں نہیں … اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں تو بالکل بھی نہیں ۔ ہے نا؟