جموں/۲۰ فروری
جموں کشمیر کانگریس کے صدر طارق حمید قرہ نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختلافات کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی مرکز کے زیر انتظام علاقے میں عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کا حصہ ہے۔
قرہ نے توقع ظاہر کی کہ جلد ہی کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ارکان پر مشتمل ایک کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
کانگریسی لیڈر نے کہا”ہم ریاست کا درجہ بحال کرنے اور لوگوں اور کارکنوں سے ملنے کی مہم پر ہیں۔ کانگریس کا اپنا انتخابی حلقہ ہے اور جہاں بھی ہم ریاست جیسے مسائل پر اپنے پروگراموں کے بارے میں لوگوں سے بات کرتے ہیں، وہ مختلف خدشات کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کے سامنے اٹھائیں“۔
ان کاکہنا تھا”ہم حکومت کا حصہ ہیں۔ ہم حکومت کو مشورہ دے سکتے ہیں۔ ہم عوام کے مسائل اٹھا سکتے ہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ عوام کے مسائل پر بات نہ کی جائے تو یہ عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا“۔
قرہ نے کہا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ غیر ضروری غلط فہمیوں سے بچنے کے لئے جلد ہی ایک رابطہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
جموں و کشمیر کانگریس ۱۳ فروری سے مرکز کے زیر انتظام علاقے کو فوری طور پر ریاست کا درجہ بحال کرنے کے اپنے مطالبے کی حمایت میں جموں خطے میں ۱۵ روزہ مہم چلا رہی ہے اور اب تک ۰۱ میں سے پانچ اضلاع میں کارکنوں کے کنونشن منعقد کر چکی ہے۔
قرہ نے کہا”یہ (ریاست کی بحالی) صرف کانگریس پارٹی کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ جموں کشمیر کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ ہے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ذریعہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کئے گئے وعدوں کے باوجود اب تک کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات بھی ہیں کہ ریاست کا درجہ جلد از جلد (اسمبلی انتخابات کے بعد) بحال کیا جانا چاہئے“۔
جموں میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والے بی جے پی رہنماو¿ں کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ بھگوا پارٹی کے قائدین کو ریاست کے درجہ پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے اور عوام کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ اگر وہ ریاست کے حق میں ہیں تو وہ مرکزی قیادت کے سامنے یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں۔
قرہ نے کہا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں نیشنل کانفرنس کی قیادت والی مقبول حکومت کی تشکیل کے باوجود کئی بیوروکریٹس اب بھی آمرانہ انداز میں کام کر رہے ہیں جیسا کہ وہ ایل جی انتظامیہ کے دوران کر رہے تھے۔
کانگریسی لیڈر نے کہا کہ کشتواڑ میں ہم نے کچھ ایسا دیکھا جہاں ہمیں لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی جمہوریت بحال نہیں ہوئی ہے۔ ”ہم نے جمہوریت کے نام پر ضلع میں آمریت کا راج دیکھا۔ ہمیں آو¿ٹ ڈور میٹنگز منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور یہ بھی ہدایت دی گئی تھی کہ آپ صورتحال کے بارے میں بات نہیں کرسکتے ہیں“۔
قرہ نے کہا کہ ایک طرف بی جے پی دعویٰ کر رہی ہے کہ جموں کشمیر میں حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ایک ذہنیت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جمہوریت بحال نہیں ہوئی ہے۔ان کاکہنا تھا”ہم ہنگامہ پیدا کرنے کے لیے وہاں نہیں تھے۔ کوئی ملک مخالف سرگرمی نہیں تھی“۔
کانگریس لیڈر اور عام طور پر عوام ریاست کا درجہ بحال کرنے میں تاخیر سے فکرمند ہیں اور بجلی کی فراہمی ، پانی ، سیاحت کے فروغ ، روزگار پیدا کرنے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور ایس پی اوز کو مستقل کرنے جیسے اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل چاہتے ہیں جو دہائیوں سے ایک ساتھ اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔
قرہ نے وادی چناب کے اضلاع کے رہائشیوں کے لئے خصوصی بجلی پیکج کا بھی مطالبہ کیا جہاں ہائیڈرو الیکٹرک کے بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں۔
کانگریسی لیڈر نے حال ہی میں سرینگر میں وزیر صحت اور تعلیم سکینہ ایتو کی صدارت میں منعقدہ ایک سرکاری اجلاس میں شرکت کرنے والے اپنے بیٹے ولید کا بھی دفاع کیا اور کہا کہ وہ مرکزی شالٹنگ سیٹ کے حلقہ انچارج کی حیثیت سے وہاں موجود ہیں۔
قرہ نے کہا”میں جموں میں تھا اور اسی کے مطابق انہیں حلقہ انچارج نامزد کیا۔ یہ ایک مثال رہی ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔“