زائد از ایک دہائی قبل کورپشن اشو کو لے کر مرکز میں برسراقتدار کانگریس کی شکست اور اقتدار سے بے دخلی کے ایک اہم کردار کیجریوال دہلی پر ایک دہائی تک راج کرنے کے بعد بالآخر اسی کورپشن کی بھینٹ چڑھ گیا جس کو رپشن کو ایک اشو بناکر وہ ملکی سیاسی اُفق پر انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اُبھر کر چھا گئے تھے۔ ملٹی کروڑ شراب سکینڈل میںپارٹی کے کئی اہم لیڈروں کے ملوث ہونے،مختلف ایجنسیوں کی طرف سے چھاپہ ماری، کئی کئی مہینوں تک جیل کی زندگی گذارنے اور اپنی رہائش گاہ کو بقول بی جے پی کے ’شیش محل‘ میںتبدیل کرنے ، جس پر تقریباً ۳۴؍ کروڑ روپے کے سرکاری اخراجات برداشت کئے گئے، اور چند دوسرے معاملات نے دہلی میں عاپ کا اگر چہ صفایا نہیں کیا لیکن اقتدار سے بے دخلی کو یقینی بنایا۔ خود کیجریوال اور ان کا دست راست منیش سسودیا دونوں الیکشن ہار گئے۔ ان کی الیکشن میں شکست پارٹی کیلئے بحیثیت مجموعی سب سے بڑا دھچکہ بھی ہے اور ہزیمت بھی!
مرکز میں حکمرا ن جماعت بی جے پی نے دہلی کو اقتدار کے حوالہ سے اپنے نقشے کا حصہ بناکر اہم کامیابی تو حاصل کرلی اور اس کامیابی کا جشن منانے کا بی جے پی کی قیادت اور کیڈر بجا طور سے حقدار ہے لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ الیکشن کی گہما گہمی کے دوران عاپ اور بی جے پی نے ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے جو الزامات عائد کئے جن میں ووٹروں کو خریدنے ، ملبوسات کی تقسیم اور دوسری غیر اخلاقی سرگرمیوں میںملوث ہونے ایسے الزامات خاص طور سے قابل ذکر ہیں الیکشن کمیشن ان پر خاموش رہا۔ اگر چہ الیکشن میدان میں ایک دوسرے کی مخالفت اور برسرپیکار جماعتیں اور اُمیدوار اس طرح کے الزامات ایک دوسرے پرعائد کرتے رہتے ہیں جو کہ الیکشن سرگرمیوں کا ایک خاصہ تسلیم کیا جارہاہے لیکن الیکشن کمیشن نام کی ایک اعلیٰ اتھارٹی اگر اس نوعیت کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرتی رہی تو وہ وقت دورنہیں کہ جب ہندوستان ایسے جمہوری ملک سے جمہوریت کا نام اور جمہوریت پر عوام کا اعتماد ختم ہو کررہ جائے گااور جو بھی پارٹی یا اُمیدوار اس نوعیت کی سرگرمیوں اور کورپٹ طرزعمل کی سیڑھیاں استعمال کرکے صاحب اقتدار بن جائے گا وہ نہ آئین کی پاسداری کا پابند ہوگا اور نہ جمہوریت پر اس کا کوئی یقین، بلکہ وہ بدترین آمرکاروپ دھارن کرکے ملک کو فسطائیت کے راستے پر گامزن کرے گا۔
بہرحال وہ ایک الگ اور طویل موضوع ہے، فی الوقت توجہ اور نگاہیں اب آنے والے کئی ایام اور ہفتوں تک دہلی پر مرتکز رہیگی اور بی جے پی کی کامیابی اور عاپ کی شکست کے پیچھے وجوہات، عوامل، ووٹروں کی ترجیحات اور تبدیلی ایسے معاملات کے حوالہ سے تجزیہ ہوتا رہے گا۔ البتہ فوری طور سے دہلی کے ان نتائج نے کل ہند سطح پر اپوزیشن بلاک کے آپسی اتحاد کو جہاں ایک اور بار بے نقاب کرکے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے وہیں اتحاد کی ایک اکائی…کانگریس جو دہلی کے الیکشن میںاپنے طور سے میدان میں اُتری تھی کو جس ایک اور شکست کا سامنا ہوا وہ کانگریس کی ’ہٹ دھرم‘ قیادت کے لئے درس عبرت ہونا چاہئے لیکن جو ابتدائی اطلاعات آرہی ہیں ان پر اگر بھروسہ کیا جائے یا قابل اعتبار تصور کیاجائے تو یہ حیران کن ردعمل کانگریس سے منسوب ہورہا ہے کہ وہ ان نتائج سے مطمئن ہے باالخصوص کیجریوال کی پارٹی کی شکست میںوہ اپنے آنے والے ایام کیلئے خوش آئند خیال کررہی ہے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں کہ ’’انگور کھٹے ہیں‘‘۔
ایک ابتدائی تجزیہ کے مطابق عاپ کی شکست کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ عاپ کی قیادت نے اقلیتی طبقے کو اعتماد میں نہیں لیا اور وقف املاک سمیت جن دیگر مسائل کا اقلیت کو سامنا ہے ان پر عاپ کی قیادت نے چپ سادھ لی اور برعکس ا س کے سافٹ ہندو توا کا راستہ اختیار کیا جو بی جے پی کے ہندو توا نظریہ، جوسخت گیری پر مبنی ہے ، کے ہوتے ٹک نہیں سکا۔ اگر چہ یہ کہا نہیں جاسکتا کہ اقلیت نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا لیکن اس اہم پہلو نے بی جے پی کی ممکنہ جیت کی سمت میں اہم کردار اداکیا۔ کیونکہ اقلیت کا ووٹر ماسوائے چند ایک حلقوں کے دور رہا۔
عاپ کی شکست کے کئی دوسرے وجوہات بھی ہیں۔ کانگریس کی طرح اس پارٹی کی قیادت الیکشن مہم کے دوران بی جے پی، اس کی حکومت کو نہیں بلکہ براہ راست وزیراعظم نریندرمودی کو نشانہ بناتی رہی ۔ غالباً ووٹروں کی اکثریت اس طرز پر مبنی الیکشن مہم کو پسند نہیں کررہی ہے ، اس حوالہ سے حالیہ برسوں کے دوران کئی عندیے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ الیکشن میدان میں پارٹیاں اور اُمیدوارسرمایہ کے بل بوتے پر پولیٹکل انجینئرنگ کا حد سے زیادہ سہارا لیتی ہیں، جو پارٹی اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتی ہے اور مدمقابل سے آگے نکل جاتی ہے وہی وقت کا سکندر کہلاتی ہیں۔ اس حوالہ سے ۹۰؍فیصد قسمت کا حصہ فی الحال بی جے پی کے حصہ میں ہے۔
جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دہلی میں عاپ کی اقتدار سے بے دخلی اور بی جے پی کی دہلی واپسی پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپوزیشن پر یہ کہکر طنز کیاہے کہ ’’ اور لڑو‘‘ وزیراعلیٰ اس سے قبل بھی کئی ایک بار اپوزیشن اتحاد کے درمیان عدم اتحاد پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں اوراب کی بار بھی ذرا ہٹ کر اور گہر ی چوٹ لگاکر اپوزیشن اتحاد کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ عمراقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک اپوزیشن اتحاد کے درمیان ناچاکی، عدم برداشت اور غیر فعالیت کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیںاور اپوزیشن کو بار بار مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنی اس پوزیشن کو واضح کریں کہ ان کا اتحادکیا صرف پارلیمانی الیکشن کے لئے محدود تھا یا ریاستی الیکشن بھی اس اتحاد کے دائرہ میں آتے ہیں۔ لیکن اپوزیشن اتحاد کو ئی جواب نہیں دے رہا ہے۔
بہرحال عمرعبداللہ کی ناراضگی کے کچھ اور بھی وجوہات خیال کئے جارہے ہیں باالخصوص اس حوالہ سے کہ کانگریس کی قیادت جموںوکشمیر کے حوالہ سے خصوصی پوزیشن اور آئینی ضمانتوں کی بحالی کے ان کے ایجنڈا پر کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے جبکہ اس مخصوص اشو پر مقامی یونٹ ایک موقف رکھتا ہے تو کانگریس ہائی کمان کچھ اور بولی بول رہی ہے۔ لیکن کانگریس کی اس دو عملی کے باوجود ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپوزیشن اتحاد کے حامی ہیں اور کانگریس کے گن گاتے رہتے ہیں جو کشمیرمیں حساس عوامی حلقے پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ تاثر اب مستحکم ہوچکا ہے کہ جموں وکشمیرکی خصوصی پوزیشن اور آئینی تحفظات اور آئینی ضمانتوںکو ختم کرنے کی اصل بُنیاد مرکزی سطح پر کانگریس کی حکومت اور جموں وکشمیر سطح پر اس کی میڈ اِ ن دہلی کٹ پتلی حکومتوں نے ہی رکھی تھی۔