سیاست میں استقامت کوئی آسان کام نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ بڑی بڑی جماعتیں اور سیاستدان اس میں ناکام ہو تی ہیں ‘ کامیابی ان کے ہاتھ نہیں آتی ہے… لیکن… لیکن کانگریس پارٹی نہیں ۔ کانگریس ایک استثنیٰ ہے کہ… کہ استقامت کسے کہتے ہیں ‘ سیاسی جماعتوں کو یہ کانگریس سے سیکھنا چاہیے … کہ … کہ اس میں اس جماعت کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ کانگریس نے ۲۰۲۰ میں دہلی اسمبلی الیکشن میں کھاتہ نہیں کھولا تھا اور… اور ۷۰ کی ۷۰ نشستوں پر اسے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا… آج پانچ سال بعد بھی ۲۰۲۵ کے اسمبلی انتخابات میں بھی اس جماعت نے… کانگریس نے اپنی سابقہ کارکردگی کو دہرایا… اب کی بار بھی یہ ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو ئی … بالکل بھی نہیں ہوئی… اب کی بار بھی اس نے کھاتہ نہیں کھولااور… اور اللہ میاں کی قسم استقامت کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیںہو سکتی ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتی ہے ۔بات نشستوں کی ہی نہیں ہے… بات ریاستوں کی بھی ہے ۔ کانگریس کو پہلے جموں کشمیر میں شکست فاش ہو ئی اور یہ جماعت پانچ چھ نشستوں پر سمٹ گئی ‘ اس کے بعد ہریانہ میں اس نے جیتی ہو ئی بازی کیسے ہار لی‘ یہ معمہ ہے… مہاراشٹرا میں بھی اس کو دھچکا لگا اور… اور بڑا زور کا لگا… ایک کے بعد ایک شکست سے ہندوستان کی سب سے پرانی جماعت نے ثابت کردیا ‘ اس نے سکھا دیا کہ استقامت کسے کہتے ہیں ۔ ہمیں بھی کانگریس کی اس خدا داد صلاحیت پر اس قدر یقین تھا کہ ہم نے اسی کالم میں پہلے اور بہت پہلے پیش گوئی کی تھی کہ … کہ کانگریس دہلی میں اپنی کا کردگی کو دہرائے گی… کانگریس دہرانے میں کامیاب ہو جائیگی اور… اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ… کہ اب کی بار دہلی والے عام آدمی پارٹی کو خاص نہیں بنائیں گے اور اسے اپنے دل اور دہلی سے بھی اکھاڑ پھینک دیں گے اور… اور دیکھئے کہ … کہ ایسا ہی ہوا … اللہ میاں کی قسم اس میں ہمارا کوئی کما ل نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… کہ … کہ یہ سارا کرشمہ کانگریس کا ہے… کسی اور کا نہیں کہ…کہ کانگریس جہاں جہاں اور جب جب الیکشن لڑتی ہے اس الیکشن کے نتائج پر رائے زنی کرنا … اس الیکشن میں ہار کس کی اور جیت کس کی ہوگی ‘ پیش گوئی کرنا آسان ہو جاتا ہے… اور اس لئے ہو جاتا ہے کہ الیکشن پہ الیکشن ہار کر کانگریس نے اپنی استقامت ثابت کر دی ہے اور … اور سو فیصد کر دی ہے ۔ ہے نا؟