سرینگر//
کولگام میں سابق فوجی پرہوئے حملے کے بعد جنوبی اور وسطی کشمیر میں نوجوانوں کی گرفتاریوں کے خلاف کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ۔
حکمران جماعت کے ممبر پارلیمان آغا روح اللہ مہدی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہو ئے ایکس پر جانکاری فراہم کرتے ہوئے بتایا’’مجھے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں شبانہ چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران ایس او جی نے زائد از پانچ سو افراد کو حراست میں لیا ہے‘‘۔
مہدی نے کہاکہ کولگام میں ٹریٹوریل آرمی کے سابق سپاہی پر ہوئے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد ناقابل برداشت ہے لیکن چند لوگوں کے جرم کی سزا پوری آبادی کو دینا دہشت گردی کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ یہ اجتماعی انتقام گیری ہے۔
ممبر لوک سبھا نے کہاکہ دنیا میں کسی نے بھی خوف اور ناراضگی کی بنا پر کامیابی کے ساتھ آبادی پر حکومت نہیں کی۔
اپوزیشن جماعت‘پی ڈی پی کی لیڈرالتجا مفتی نے بدھ کے روز کہاکہ کولگام واقعے کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ حد تو یہ ہے کہ عمر عبداللہ کی سربراہی میں سرکار اس پر کوئی بیان نہیں دے رہی۔
ان باتوں کا اظہار التجا مفتی نے کولگام میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔
التجا نے کہا کہ کولگام میں سابق فوجی کی ہلاکت ناقابل برداشت ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
التجا مفتی نے کہاکہ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس جرم کی سزا پوری کشمیری قوم کو دی جارہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ کولگام سے ہی نہیں بلکہ گاندربل سے بھی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور پولیس والے زبردستی نوجوانوں کو اٹھا رہے ہیں۔
ان کے مطابق ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کن لوگوں نے سابق فوجی کا قتل کیا لیکن اس کے باوجود بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے التجا مفتی نے کہاکہ سرکار کے منہ میں دہی جم چکی ہے۔انہوں نے کہاکہ پانچ سو نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور جموں وکشمیر کی چنی ہوئی سرکار نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
التجا کا مزید کہنا تھا کہ سرکار بہانہ بنائے گی کہ پولیس کا کنٹرول ایل جی انتظامیہ کے پاس ہے لیکن حکومت تشکیل دینے کے بعد اب ایل جی اور عمر انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں رہا ہے۔
سی پی آئی (ایم) کے سینئر لیڈر اور ایم ایل اے کولگام، محمد یوسف تاریگامی نے آج کہا کہ بے گناہ لوگوں کا قتل سخت مذمت کا مستحق ہے، لیکن ایک پوری کمیونٹی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنانا ’غیر منصفانہ‘ اور’ناقابل قبول‘ ہے۔
تاریگامی کولگام دہشت گردانہ حملے کے پس منظر میں بات کر رہے تھے جس کے بعد مبینہ طور پر سینکڑوں نوجوانوں کو پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے۔
پیر کو نامعلوم دہشت گردوں نے کولگام ضلع کے بیہی باغ گاؤں میں ایک خاندان پر فائرنگ کی جس میں ایک سابق فوجی مارا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور بھتیجی زخمی ہوگئیں جو سری نگر کے آرمی کے ۹۲بیس اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ایکس پر تاریگامی نے کہا’’کولگام کے بہی باغ علاقے میں دہشت گردانہ حملے کے بعد شبانہ چھاپوں اور من مانی حراستوں کی اطلاعات گہری پریشان کن ہیں۔ اگرچہ بے گناہ لوگوں کا قتل سخت ترین مذمت کا مستحق ہے، لیکن ایک پوری کمیونٹی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنانا ناانصافی اور ناقابل قبول ہے۔‘‘
بتادیں کہ کولگام میں فوجی جوان کی ہلاکت کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں نے پوچھ تاچھ کی خاطر متعدد افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ زائد از پانچ سو افراد کو حراست میں لیا گیا۔ تاہم پولیس یا فوج کی جانب سے تا حال گرفتاریوں کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔