کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور بازآبادی کاری کے تعلق سے کشمیرمیں اب فضا موافق ہے جبکہ مقامی آبادی بھی اس بات کے حق میں ہے کہ پنڈت برادری واپس کشمیر آجائیں کے تعلق سے قومی اقلیتی کمیشن کی خاتون رکن روبل نیگی کے حالیہ بیان پر کچھ سماجی کارکنوں نے بُرا منایا ہے اور خاتون رکن پر الزام لگایا کہ وہ پنڈتوں کی وادی سے ترک سکونت کے تعلق سے تاریخی حقائق کو نظرانداز کررہی ہے۔ ان سماجی کارکنوں نے خاتون پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ یاتو ریڈیکل عنصر کی خوشامد کررہی ہے یا ۹۰ء کی دہائی کے دوران ترک سکونت کے پس منظرکی واقفیت نہیں رکھتی ہے ۔ اختلافی ردعمل کا لب ولباب یہ ہے کہ واپسی کے تعلق سے ابھی تک کوئی ٹھوس روڈ میپ نہیں بناگیا گیا اور نہ ہی سکیورٹی کے تعلق سے کسی تحفظ کی یقین دہانی۔
پنڈت برادری کی اپنی جگہ جو کچھ بھی تحفظات ، خدشات اور سوالات ہیں ان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ وہ باعزت واپسی چاہتے ہیں۔ جو ان کے بقول ابھی تک ممکن نہیں ہوپارہی ہے ۔ اس تعلق سے انہیں گلہ ہے کہ مرکز میں چاہے کانگریس سرکار برسراقتدار تھی یا اب ۱۱؍ سال سے بی جے پی سرکار اقتدار میں ہے بشمول جموں وکشمیر انتظامیہ کے کسی بھی حلقے کی جانب سے پنڈتوں کی واپسی اور بحالی کے اشو کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ صرف زبانی جمع خرچی سے کام لیاجارہا ہے۔
پنڈت برادری کی جو کوئی بھی قیادت کا دعویدار ہے گذرے ۳۵؍ برسوں کے دوران اُن میں سے کسی ایک نے بھی واپس اور بازآبادکاری کی سمت میں ایک زبان ہوکر کوئی متفقہ روڈ میپ پیش نہیں کیا۔ کوئی کشمیر وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے میں پنڈتوں کی بستیاں تعمیر اور قائم کرنے کا ایجنڈا آگے بڑھارہا ہے ، کوئی واپسی کو اپنے تباہ حال اثاثوں اور املاک کا معاوضہ طلب کرنے سے مشروط کررہاہے، کوئی وادی کے مختلف اضلاع میںمخصوص بستیوں کی تعمیر کے لئے آواز بلندکررہا ہے، تو کوئی جہاں کہیں پنڈت برادری کے لوگ فی الوقت رہائش پذیر ہیں ان کیلئے وقف راحتی اقدامات بشمول ماہانہ مالی امداد اور دوسرے معااملات میں اضافہ کا مطالبہ کررہا ہے۔غرض جتنی قیادت کے دعویدار ہیںیا جتنی بھی تعداد میں تنظیموں کا قیام عمل میں لایاگیا ہے وہ واپسی اور بازآبادکاری کے تعلق سے اپنی اپنی پسند اور اپنے اپنے ایجنڈا کی روشنی میں اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔
کشمیر انتظامیہ نے کچھ مخصوص شکایتوں کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے پنڈتوں کی وہ جائیدادیں اور املاک ناجائز قابضین سے واپس لی ہیںجن پر ناجائز قبضہ کیاگیا تھا یا تجاوزات کئے گئے تھے۔ ماسوائے اُن جائیدادوں کے جن کی خرید وفروخت گذرے برسوں کے دوران عدالتوں کی تصدیق کے ساتھ عمل میں آئی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ ان جائیدادوںکی جبر کے راستے خرید وفروخت عمل میں لائی گئی ہے بادی النظرمیں درست نہیں۔ بے شک ابتدائی ایام میں کئی جائیدادوں کو آتشزنی کا نشانہ بنایا جاتا رہا، کون نشانہ بنارہا تھا، کون ان وارداتوں کے پیچھے تھا، کیوں ایساکیا جاتارہا اس بارے میں کئی برس قبل ایک سرکردہ انگریزی روزنامے میںایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میںان سبھی سوالوں کا جواب غالباً موجود ہے ۔
بہرحال ماضی، ماضی ہے ، کشمیر کے حوالہ سے وہ کون ہے جو دعویٰ کرے اپنی پارسائی کا ؟ لیکن اگر ماضی کو ہی مستقبل کی جانب پیش قدمی کے حوالہ سے پتھر کی لکیر قرار اور سمجھا جاتا رہا تو نہ تلخیاں ختم ہوسکتی ہیں اور نہ ہی اختلافی امورات، چائے نوعیت کچھ بھی ہو، کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ ایک حلقہ مسلسل دعویٰ کرتا رہا کہ پنڈتوں کے کشمیر سے ترک سکونت کا ذمہ دار وقت کا گورنر اور اس کی ایڈمنسٹریشن تھی تو دوسرے حلقے کا مسلسل دعویٰ ہے کہ ریڈیکل عنصر ذمہ دار ہیں۔ ترک سکونت ہی کے تعلق سے کچھ حلقے ان دو سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ماضی ہے اور اس ماضی میںقید رہتے کشمیر ی سماج، چاہئے مسلم معاشرہ ہے یا پنڈت معاشرہ، اپنے حال کو بہتر اور اپنے مستقبل کو روشن اور خوشحال نہیں بناسکتا! ہم سب کو ماضی کے اس قید سے باہر نکلنا ہوگا۔
ہمیںیاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل کشمیر پنڈتوں سے وابستہ کچھ بااثر شخصیات نے بھی ماضی کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی تجویز پیش کی تھی اور اُمید جتلائی تھی کہ ایسا کرنے سے نہ صرف سارے اختلافات مٹ جائیں گے بلکہ ماضی کی طرح پنڈت اور مسلم برادری آپس میں پھر سے گل مل کر آگے کا سفر مشترکہ طور سے طے کریں گے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس نوعیت کی زخموں پر مرہم رکھنے والی آوازوں کو کچھ مفادت پرست، شکم پرست اور ابن الوقت عنصر دن کا اُجالا دیکھنے کی راہیں مسدود کرتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کے مفادات اور عزائم مکروہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت گہرے ہوتے ہیں۔
بہرحال قومی اقلیتی کمیشن کی خاتون رکن نے واپسی اور باز آباد کاری کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن خیالات کا تعلق اُس زمینی حقیقت سے ہے جس کا مشاہدہ مذکورہ رکن نے اپنے وادی کے پانچ روزہ دورے کے دوران کیا،مختلف لوگوں اور وفود سے ملاقاتوں کے دوران جو کچھ اخذ کیااُس کو سامنے رکھ کر انہیں اپنی زبان دی۔ اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا ؟ ظاہر ہے وہ اپنے ذاتی دورے پر کشمیر نہیں آئی تھی،ان کا یہ دورہ غالباً سرکاری ہی رہا ہوگا، تبھی تو اس نے اپنی شناخت کمیشن کی رکنیت کے حوالہ سے کی، اگر ذاتی دورے پر آئی ہوتی تو وہ اس پوزیشن میں نہ ہوتی کہ وہ یہ کہہ سکے کہ کشمیر کی مقامی (مسلم)آبادی میں پنڈت برادری کے تئیں کوئی ’’منفی ‘‘ سوچ نہیں ہے۔
غالباً روبل نیگی کے بیاںکے اسی حصے پر کچھ سماجی ورکر سیخ پا ہوئے اور ان سے یہ برادشت نہیں ہوسکا چنانچہ انہوںنے وہی پرانی راگ پھر سے الاپی اور نیگی پر وادی میںریڈیکل عنصر کی خوشامد کرنے کا الزام عائد کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وادی کے عوام کے آگے پیچھے لفظ’’ریڈیکل‘‘ کی دم منسلک کرنے کی خوگریت کے پیچھے بہت سارے مذموم اور مکروہ عزائم رہے ہیں۔ ریڈیکل کی اصل اصطلاح کرنے بیٹھ جائیں تو بہت سارے پہلو اور چہرے بے نقاب ہوتے جائیں گے، اگر ریڈیکل کا مطلب مندر، مسجد، یا گرجامیں جاکر اپنی اپنی عقیدت اور آستھا کے مطابق عبادت کرنا ہے تو ہندوستان کی ۱۴۰؍ کروڑ آبادی ریڈیکل ہے۔
اہل وادی آج کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ پہلے دن سے اس خواہش کا با ربار اعادہ کرتی رہی کہ وادی سے چلے گئے ان کے پنڈت ہمسایے واپس گھروں کو لوٹ آئیں اور اپنے ہمسایوں کے درمیان پرسکون زندگی گذاریں۔ کیا ان برسوں کے دوران پنڈت برادری سے وابستہ جولوگ اپنے آبائی گھروں اور محلوں میں آکر اپنے ہمسایوں سے ملاقاتی ہوئے کیا ان میں سے کسی کو کسی طرح کی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، کیا ان کے ہمسایوں نے انہیں گلے نہیں لگایا، کیا وادی میں مقیم پنڈتوں کے دُکھ سکھ میںمقامی ہمسایے برابر کے شریک نہیں ، کیا کسی کے جنازے کومسلمان کا ندھا دینے کیلئے پیش پیش نہیں، پھر بھی ریڈیکل کا طعنہ !