سرینگر//
جموں کشمیر کے وزیر اعلی ‘عمرعبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ جموں کشمیر میں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آئے ہیں کیونکہ جموں کشمیر کے مختلف حصوں سے حملوں کی اطلاعات اب بھی آ رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ علیحدگی پسندی کو جگہ دے رہا ہے اور آرٹیکل کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر مکمل طور پر ہندوستان میں ضم ہوگیا ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ہمیں اب بھی مختلف مقامات سے حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ آج بھی جموں و کشمیر میں حالات مکمل طور پر معمول پر نہیں آئے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک عمل ہے اور دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوتا ہے۔
بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔
ان کاکہنا تھا’’اس سال، بجلی پچھلے سال کے مقابلے میں بہتر ہے۔ لیکن کچھ کٹوتیاں ہیں جن کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ ہم شیڈول کے مطابق بجلی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب نظام میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم بجلی کی فراہمی میں کٹوتی دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم جتنی جلدی ممکن ہو اسے ٹھیک کریں گے‘‘۔
سردیوں کے موسم کیلئے حکومت کی تیاریوں کے بارے میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت تیار ہے اور اس سے نمٹے گی۔
عمرعبداللہ کاکہنا تھا’’ہم نے کئی بار میٹنگیں کیں۔ اور پچھلی برفباری کے بعد، ہم نے کچھ تجربہ حاصل کیا ہے۔ جہاں کہیں بھی ہم نے اچھا کام کیا، اسی طرح کی چیزیں دہرائی جائیں گی اور اگر کچھ خامیاں یا کمزوریاں تھیں تو انہیں درست کیا جائے گا‘‘۔
وزیراعلیٰ نے وادی کشمیر کا نام تبدیل کرنے کی افواہوں کو بھی مسترد کردیا۔
عمر نے کہا’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک چینل یا اخبار تھا جس نے اس کی رپورٹنگ کی اور بعد میں انہوں نے اس کی وضاحت بھی کی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور یہ جموں و کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘
جمعرات کو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ نے کشمیری نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کے بیج بوئے تھے جس کے نتیجے میں دہشت گردی پھیلی جس کے نتیجے میں۴۰ہزار؍ افراد ہلاک ہوئے۔
ان کاکہنا تھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے لیکن بہت سے دیگر مسلم اکثریتی علاقے ہیں جہاں دہشت گردی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی سرحد (پاکستان کے ساتھ) ہے لیکن گجرات اور راجستھان کی سرحدیں بھی اسی پڑوسی کے ساتھ ہیں۔
شاہ نے کہا ’’دراصل یہ آرٹیکل ۳۷۰ ہی تھا جس نے یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے تعلقات عارضی ہیں اور اس نے نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کے بیج بونے میں مدد کی ہے‘‘۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ علیحدگی پسندی کے احساس کو دہشت گردی میں تبدیل کر دیا گیا جس سے ۴۰ ہزار افراد ہلاک ہوئے اور دہشت گردی کا ننگا رقص کئی سالوں تک جاری رہا۔ انہوں نے کہا کہ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات میں ۷۰ فیصد کمی آئی ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ سال ۲۰۱۸ میں پتھراؤ کے۲۱۰۰ واقعات ہوئے لیکن ۲۰۲۴ میں ایسا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پچھلے سال لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ووٹنگ کا ۳۱ سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔’’ جموں و کشمیر میں تین سطحی پنچایتی راج اداروں (پی آر آئیز) کے ساتھ گہری جڑیں رکھنے والی جمہوریت موجود ہے۔‘‘