کہتے ہیں کہ وادی میں مزید برفباری ہونے والی ہے… کچھ ہلکی‘ کچھ درمیانی اور کچھ بھاری… اتنی بھاری جو لوگوں کی عام زندگی پر بھاری ثابت ہو سکتی ہے… اب کیا ایسا ہی ہو گا‘ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی صحیح ثابت ہو گی ‘ ہم نہیں جانتے ہیں… اس لئے نہیں جانتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے کشمیر میں جو برفباری ہوئی اس کی توقع نہیں تھی… پیش گوئی نہیں تھی… پیش گوئی تھی… ہلکی بالکل ہلکی برفباری کی …درمیانی درجے کی برفباری کی نہیں تھی… اس برفباری سے پیدا شدہ مسائل کو حل کرنے میں عمرعبداللہ کتنے کا ر گر اور موثر ثابت ہو ئے ہم اس پر بات نہیں کریں گے… کچھ کا دعویٰ ہے کہ حالیہ برفباری کے دوران یقینا انتظامیہ اور اس کی مشینری زمین پر تھی…جس سے لوگوں … عام لوگوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا… لیکن… لیکن اپوزیشن جماعت‘ بی جے پی حکومتی اقدامات سے بالکل بھی خوش نظر نہیں آئی اور… اور اس نے نہ صرف اس کا برملا اظہار کیا بلکہ عمرعبداللہ سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا گیا… استعفے کا مطالبہ کسی چھوٹے موٹے لیڈر نے نہیں بلکہ بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری اور کشمیر انچارج‘ ترون چگ نے کیا … اس وقت کیا جب ابھی برفباری ہو ہی رہی تھی… بی جے پی اپوزیشن جماعت ہے ‘ اس لئے اس سے کسی اور بات کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے… بالکل بھی نہیں کی جا سکتی ہے … لیکن عمرعبداللہ سے استعفے کا مطالبہ … شاید بی جے پی نے لال لکیر پار کردی اور… اور اس لئے کردی کہ… کہ اگر برفباری سے نمٹنے پر سربراہ حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا… اگر اس سے مستعفی ہونے کی توقع رکھی جائیگی تو… تو صاحب پھر تو ہر سال سرما میں ہر سربراہ حکومت کو استعفیٰ دینا پڑے گا … اور اگر برفباری سے پیدا شدہ مسائل اور مشکلات سے نمٹنے میں ناکامی پر واقعی استعفیٰ دینا ہو گا تو… تو صاحب پھر تو گزشتہ برسوں راج بھون میں بھی ہر سال موسم سرما میں ایک نیا مکین آجانا چاہئے تھا کہ… کہ گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران موسم سرما میں… برفباری سے‘ بجلی بحران سے راج بھون نے کیسے نمٹا یہ لوگوں سے… کشمیریوں سے پوچھ لیجئے … اور ان کا جواب سن کر آپ فیصلہ کیجئے کہ کیا پھر قسمت راج بھون کے مکین پر مہر بان نہیں تھی جو کسی نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا … بالکل بھی نہیں کیا ۔ ہے نا؟