ایک کلینڈر سال گذر گیا، دوسرا کلینڈر سال کاآغاز ہوگیا۔بیتے کلینڈر سال کے دوران کیا پایا اور کامیابیوں کی ٍحصولیابیوں اور ناکامیوں کی فہرست میں کیا کچھ درج ہوا وہ اب کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس نوعیت کی حساب فہمی ایک گھسی پٹی روایت کا محض ایک تسلسل ہے ۔ البتہ کچھ امورات کے حوالہ سے یہ ضرور ہے جو غوروفکر کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن کشمیر کے حوالہ سے یہ مسلمہ امر ہے کہ یہاں لو گ خود احتسابی میں یقین نہیں رکھتے ۔
سیاسی منظرنامہ کے تعلق سے آئینہ سامنے رکھ کرمحض سرسری جائزہ لیاجائے تو مایوسی ہی مایوسی محسوس کی جارہی ہے۔ جن اقدار، خواہشات، نظریات، عقیدوں اور ترجیحات کی بُنیاد پر سیاست اور اس حوالہ سے منظرنامہ کو پروان چڑھایاجارہاہے ، آبیاری کی جارہی ہے اور اسی منظرنامہ کو اب متاع زندگی فرض کرکے معاملات طے کئے جارہے ہیں ان کے اندر جھانکتے ہوئے یہ احساس شدت سے ہوجاتا ہے کہ اس ٹنل کا آخری سرا پر گھٹا ٹوپ اندھیرے نے اپنا ہالہ بنالیا ہے۔ جو کسی بھی حوالہ سے کسی نئی صبح کی نوید نہیں۔
جموں وکشمیر کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کبھی کسی زمانے یا دورمیں عوام کی خواہشات اور آرزوں اور خوابوں کے مطابق نہیں گذری ہے۔ یہ تاریخ غیروں کے ناجائز تسلط، جبر اور قہر، ظلم وستم ، لٹیرانہ طرز سے عبارت انداز فکر اور اپروچ ، عوام کے دانے دانے کی محتاجی اور کسمپرسی ، ناجائز استحصال، ہر ادوارمیں جعفر وصادق ایسی فطرت وکردار کی حامل شخصیتوں کا جنم، دغا، فریب ،ریاکاری اور جھوٹ سے سراپا عبارت ہے۔
ان خاکوں پر جب غور کیا جاتا ہے تو قدرتی طور سے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کشمیرکا ڈی این اے کیا ہے، اس کی مٹی کیا ہے، اس مٹی نے اس کیلئے کس مقدر کو جنم دیا ہے اور سب سے بڑھ کر کیا یہ بقول ایک کشمیری فلسفی اور شاعر’’ ای میہ لکھ نم لوحِ محفوظس طی چُھس نکھ والان‘‘سے باہر کچھ بھی نہیں اور اسی کے دائرہ میں رہ کر سب کچھ ہورہاہے؟
اگر چہ بیتے سال کے دوران عوام جمہوری طرز نظام کی ایک ذرا سی جھلک سے سرفراز ہوئے اور اس اُمید کے ساتھ کہ اب اس کے طفیل سالہاسال کے بعد کچھ راحت نصیب میں آئیگی اور گذرے برسوں کے دوران جو کچھ زخم دیئے گئے ان پر کچھ حد تک مرہم رکھنے اور ان زخموں کو مندمل ہونے کا تھوڑا سا راستہ ہموار ہوگا لیکن عوام کی یہ اُمیدیں آہستہ آہستہ حسرتوں میںتبدیل ہوتی جارہی ہے اور یہ اُمیدیں اُسی سیاسی اُفق کی بھینٹ چڑھتی یا چڑھائی جارہی ہیں جس سیاسی طرز نظام کو زندگی کے کم وبیش ہر شعبے پر مسلط کردیاگیاہے یاسب کچھ اسی نظام اور اسکے ایک اور بطن سے پیدا ہورہے انداز فکر کے مطیع بنایا جارہاہے ۔ اس طرح کشمیرکے حوالہ سے ماضی یا تاریخ کو دہرایا جارہاہے۔
بہرحال سیاستدانوں کے محلوں ، حکمرانی کے اعلیٰ ایوانوں ، مخصوص فکر سے وابستہ میڈیا ہائوسوں کی جانب سے بلند وبانگ دعوئوں سے قطع نظر زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ بعض این جی اوز اور اداروں، لاکھوں روپیہ مالیت کی سرکاری گاڑیوں اور سکیورٹی حصار کے ساتھ بازاروں میں ساگ سبزیوں اور روٹیوں کی قیمتیں معلوم کرنے والوں، ٹریفک مینجمنٹ کے حوالہ سے یوٹی کے دو خطوں میں مروجہ قوانین اور ضوابط کی باہم متصادم عمل آوری، شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کے حوالوں سے تیزی سے انحطاط پذیر سسٹم، سپلائی ، درس وتدریس اور نگہداشت کو منظم تجارت میں تبدیل کرکے آبادی کے غریب اور نادار طبقوں کو ان دو اہم شعبوں کی خدمات اور سہولیات سے بتدریج محروم کرنے، کچھ ایسے اداروں جو انتظامیہ اور نگرانی کے حوالہ سے اندرونی خود مختارتھے سے یہ خود اختیاری بھی چھین لی گئی ہے اورانہیں بھی نئے سیاسی نظام یا فکر کا مطیع بنایاگیا ہے، اس حوالہ سے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جس کی اندرونی خودمختاری چھین کر نہ صرف اس کے انتظامیہ کو کم وبیش سبھی معاملات میںدست نگر بنایا گیا ہے بلکہ اس محرومی کے بطن سے ڈاکٹر وں اور ماہرین طب ایک ایک کرکے ترک سکونت اختیار کرتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں طبی نگہداشت اور نگرانی بہت حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ کشمیراور کشمیریوں کیلئے بحیثیت مجموعی یہ ایک ایسا المیہ اور صدمہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیاجائے کم ہے۔
کشمیر ہر دور میں بلکہ قدم قدم پر اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کرتا رہا ہے کہ اسے بھی ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی طرح ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں، انہیں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملاتے ہوئے ترقیاتی سفر میںاپنا مٹھی بھر کردار اداکرنے کا موقع فراہم کیاجائے اور انہیں من چاہی مرضیوں اور غیر فطری اقدامات اور فیصلوں کے بوجھ تلے دبانے اور کچلنے کے راستوں سے اجتناب کیاجانا چاہئے لیکن گذرے ۷۵؍سال کی تاریخ، معاملات ، طریقہ کا ر اور اپروچ گواہ ہے کہ جواہر ٹنل کے اُس پار کشمیرکی اس خواہش کا احترام کہیں پر نہ نظرآتا رہا اور نہ فی الوقت نئی ٹنل (نویُگ ٹنل ) کی تعمیر کے باوجود کہیں نظرآرہا ہے۔
کشمیر کو جس انداز اور طریقوں سے مسلسل طور سے لتاڈا جارہا ہے اس لتاڈ کی بُنیادیں کشمیر نشین مختلف نظریات اور مختلف سیاسی مکتبوں اور فکر سے وابستہ سیاستدانوں نے اپنے ہاتھوں سے رکھ لی ہیں اور اس کے بدلے اپنے لئے مراعات اور عیاشیوں کے محلات حاصل کرلئے ہیں۔ کسی نے اندرونی خودمختاری کا نعرہ بلند کیا ، کسی نے سیلف رول کا مژدہ سنایا، کوئی حصول وطنیت کی ناکام دستاویز کے ساتھ اپنا پرانا کوٹ بدل کر جلوہ گر ہوا تو کوئی غنڈہ اور کورپٹ راج کی بُنیادیں ہموار کرنے کے دورکے خالق بخشی ثانی کا روپ دھارن کرنے کی خواہش کے ساتھ میدان میں کودگیا۔ لیکن ان سب کی حیثیت صر ف اور صرف سوداگرانہ ہے اور لوگوں کو جھوٹ اور گمراہ کن نعروں اور پُر فریب اشاروں سے بہلانے اور پھسلانے کی پیشہ ورانہ مہارت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔
سیاست ،انتظامیہ ،صحت ، تعلیم ، ترقی ، نگہداشت اور روزمرہ کے معاملات سے قدرے ہٹ کر اب کشمیر پر ایک نئی مصیبت فساد کی صورت میں نازل اور مسلط کی جارہی ہے، جس کو عمومی اور لسانیات کی اصطلاح میں تہذیبی اور فکری جارحیت سے بھی منسوب کیاجارہا ہے۔ کشمیر کے مسلم سماج کو عقیدوں، مسلکوں، نظریات، رواجوں ، اقدار اور سماجی روایات کی بُنیاد پر تقسیم کرنے کیلئے بہت سارے حضرات میدان میں سرگرم نظرآرہے ہیں۔ مسلکی خطوط پر اب جہاں کشمیر کے سیاسی نظام کو ترتیب دینے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں سردیوں اور یخ بستہ اور رگوں میںخون کو منجمد کرنے والی ہوائوں سے قدرے محفوظ رکھنے میں مدد گار کانگڑی کے استعمال پر کچھ خودساختہ مولویوں کے درمیان بحث وتکرار جاری ہے۔ کانگڑی تو پھیرن کے اندر ہے لیکن پھیرن کے باہر کی جو دُنیا ہے اُس میں کیا کچھ ہورہا ہے وہ ان کی ناک کے نیچے ہی تو ہورہا ہے لیکن سارا نظرآنے کے باوجود وہ تین بندروں سے مشابہت راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مختصر یہ کہ خدا اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا نہ ہوجس کو اپنی حالت بدلنے کی فکر وصلاحیت !