ریزرویشن کے معاملے پر اگر وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کوبچوں کے احتجاج پر کوئی اعتراض ہوتا تو ان کے وفد کو اندر بلاکر ان سے تفصیلی بات نہ کرتے اور نہ یہ یقین دہانی کراتے کہ اس مخصوص معاملے پر آنے والے چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کیاجائے گا۔وزیر اعلیٰ کی ٹھوس یقین دہانی پر اپنی جائز اور حق پر مبنی مانگ کو لے کر سڑک پر آئے بچے جن کی تعداد کئی سو تھی پر امن اور اطمینان طور سے منتشر ہوگئے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس کی عوامی حلقوں نے یہ کہکر سراہنا کی کہ وزیراعلیٰ نے دانشمندی اور تدبر کے ساتھ صورتحال کو نمٹایا۔ لیکن ابھی یہ سراہنا مختلف حلقوں کی جانب سے کی ہی جارہی تھی کہ کچھ سیاسی پہلو ان میدان میں کو دگئے اور انہوںنے ممبر پارلیمنٹ روح اللہ کے احتجاج کی قیادت کو سیاسی ڈرامہ اور دکھاوا قراردیا، اپنی پارٹی کے سید الطاف بخاری نے ’’پتر حسد‘‘ کی آگ میں جلتے روح اللہ کے اس اقدام کی تنقید کرتے ہوئے فتویٰ صادر کیا کہ ایسی ڈرامہ بازی سے لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
کانگریس کا سابق صدر جی اے میر بھی میدان میں کود پڑے اور آغا روح اللہ کے احتجاج کی قیادت کو فوٹو سیشن قراردیا۔ معلوم نہیں کہ بچوں کے اس مطالبے سے کانگریس پارٹی خاص کر اور جی اے میر کا باالعموم کون سا ذاتی اور خاندانی مفاد دائو پر ہے۔ سب سے حیران کن ردعمل خود نیشنل کانفرنس کی طر ف سے(غالباً بعد کی سوچ کے تابع) اس فتویٰ کے ساتھ سامنے آیا کہ روح اللہ نے احتجاج کرکے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، اپنے احتجاج میں پارٹی کے دشمنوں (پی ڈی پی) کی لیڈر شپ کو جگہ دی، جبکہ اس ردعمل میں غالباً اپنی سوچ اور قدسے تجاوز کرتے ہوئے یہ سنسنی خیز مگر حیران کن الزام بھی روح اللہ پر عائد کیاگیا کہ ’’این سی لیڈر بیرونی قوتوں کے اثر ورسوخ پر ہوائی جہاز کے ذریعے آتے ہیں ، لند ن سے فون کال آتی ہے … باہر ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جو نظریاتی طور پر ہماری مخالفت کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں……‘‘
پھر رہی سہی کسر خود وزیراعلیٰ نے اپنے ردعمل میں زمانہ قدیم کے ایک انگریز شاعر ادیب رڈ یاڈ کپلنگ اور اس کے جواب میں آغا روح اللہ نے میلکام کی ادبیات کا سہارا لے کر ایک دوسرے پر تیروں کی بارش کی ۔ اگراس دلیل یا منطق کوکوئی جواز عطاکیاجائے کہ روح اللہ نے احتجاج کی قیادت کرکے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو وزیراعلیٰ نے اپنی رہائش گاہ کے سامنے جاری احتجاج میں شرکت یا دوسرے الفاظ میں اظہار یکجہتی کیلئے اپنے بیٹے کو کیوں آگے کردیا، مانا کہ وہ ابھی شاید این سی کا حصہ نہیں ہوں گے مگر شناخت تو این سی سے ہی ہے۔
روح اللہ نے سیاسی ڈرامہ بازی کا مظاہرہ کیا، فوٹو سیشن کیلئے ایسا کیا یا اور کسی مقصد یا اور کسی بیرونی قوت کے کہنے پر ایسا کیا ، سوال یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا بچوں کا مطالبہ کوئی اخلاقی یا سماجی گراوٹ ہے، غدارانہ عمل ہے یا ملک دُشمنی کے کسی جذبے سے وابستہ ہے؟ وہ اپنے برحق اور جائز حق کیلئے میدان میں اُتر ے ہیں۔ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ جموں خطے جہاں شیڈول کاسٹ ؍شیڈول ٹرائب اور دوسرے زمروں کے تحت آبادی کا بڑا حصہ کشمیرکے برعکس آتا ہے میں بھی جنرل زمروں سے وابستہ بچے یہی حق مانگ رہے ہیں۔
احتجاجی بچے اپنے ساتھ ہورہی ناانصافی اور زیادتی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ زمروں کے تحت آنے والوں کو ان کے حقوق سے محروم کیاجائے بلکہ یہ مانگ کررہے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے ریزرویشن کا سرنو تعین کیاجائے۔ حالیہ چند برسوں میںووٹ بینک کی سیاست کو مقدم سمجھتے اور قرار دیتے ہوئے ریزرویشن طریقہ کار میں اس حد تک تبدیلی لائی گئی کہ جس کے نتیجہ میں جنرل زمرے کے تحت آبادی کا کوٹہ ۷۰؍فیصد سے گھٹ گھٹا کر محض ۳۰…۳۵؍ فیصد تک سمٹ کے رکھدیا گیا۔ یہ آبادی کے اس مخصوص حصے کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے جبکہ ان کے حقوق اور مفادات پر ایک ایسی کاری ضرب ہے جس کو اگر فوری طور سے سدھار انہ گیا تو اس کی ٹیس آنے والی نسلوں کو بھی چھلنی اور زخمی کرتی رہیگی۔
۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق شیڈول کاسٹ طبقے کی مجموعی آبادی ۹؍لاکھ ۲۵؍ ہزار کے قریب تھی جوشرح تناسب کے اعتبار سے ۵۴ء۷ فیصد بنتی ہے جبکہ شیڈول ٹرائب کی مجموعی آبادی ۱۲؍ لاکھ ۷۵؍ ہزار تھی جو شرح تناسب کے اعتبار سے۳۹ء۱۰؍ فیصد بنتی ہے۔ یہ آبادی جموں خطے میںرہائش پذیر ہے۔ اگر ان کی اس آبادی میں اس مدت کے دوران اوسطاً ۲۰؍ فیصد کے تناسب سے اضافہ مانا جائے تو بھی ان کی مجموعی آبادی ۲۶؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ شیڈول ٹرائب میںگوجر ، بکروال، گدی وغیرہ سبھی شامل ہیں۔
اس زمینی حقیقت کو اندھی سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کے مطیع یا تو سمجھا نہیں جارہا ہے یا فہم وادراک کے باوجود دانستہ طور سے نظرانداز کیاجارہا ہے۔ زمروں کے تحت مراعات یا سہولیات فراہم کرنا فی الحال قانونی مجبوری ہے لیکن جو لوگ اس راستے انتظامیہ میں فائز ہوتے رہے ہیں، یا زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوتے رہے ہیں ان کی کارکردگی اور صلاحیت پر مختلف حلقے سوال اُٹھاتے رہے ہیں لیکن ہمیں ان سوالات سے اتفاق نہیں البتہ اس پر اعتراض ہے کہ Creamy Layer کو نظرانداز کیاجارہاہے، جس کی مثال یہ ہے کہ کسی زمرے سے وابستہ بچہ ڈی پی ایس درجہ والے سکول میں زیرتعلیم ہے لیکن جب مراعات کی بات آتی ہے تو وہ اپنے درجے کا دعویدار بن جاتا ہے ۔سرکاری ملازمت میں داخل ہوتا ہے تو کوٹہ کے تحت اور جب ترقی کا مرحلہ آتا ہے تو اُس وقت بھی کوٹہ کا دعویدار بن جاتا ہے ۔ یہ کوٹہ ایک وقتی تک محدود ہونا چاہتے تھا لیکن انہیں قدم قدم پر کوٹہ کا حقدار قراردیاجاتا ہے۔
قطع نظر اس بحث کے بچے کشمیر کے ہوں یا جموں خطے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی پیٹ کا دوزخ نہ رڈ یاڑ کپلنگ کی شاعری اور نہ ہی میلکام کے نیگروز کی یاد کرکے ٹھنڈا کرسکتے ہیں۔ سیاستدان جموں نشین ہیں یا کشمیر نشین بچوں کے حوالہ سے اس زمینی حقیقت کا احساس بھی کریں اور احترام بھی ۔ ممکن ہے وہ خود اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں اور اپنی سیاست اور روزمرہ زندگی کے حوالہ سے انگریزوں کی شاعری یا ادبیات سے متاثر ہوں لیکن اپنے بہتر کیرئیر کی دوڑ میں بچے جس عرق کو بہا رہے ہیں حکمران ہوں یا الیکشن میں شکست خوردہ کوئی سیاست کا ر بچوں کے اس پہلو کو اپنی مفاد پرستانہ اور ابن الوقتی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں بلکہ ان کی محنت اور آرزوں کا احترام ملحوط خاطر رکھیں۔ ساتھ ہی یہ عدالتی معاملہ نہیں ہے بلکہ محض ایک انتظامی اشو ہے کیونکہ کوٹہ کا تعین کسی عدالت نے نہیں بلکہ حکومت نے اپنے مخصوص سیاسی اور انتظامی اہداف کے مطیع کردیا ہے تاہم اب جبکہ معاملہ عدالت میں ہے تو جوڈیشری سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ کوٹہ کا تعین آبادی کے تناسب سے کرے ۔ اس اشو کا تعلق لاکھوں بچوں کے ہی مستقبل سے نہیںبلکہ ۷۰؍ فیصدآبادی کے فوری اور طویل المدت حقوق اور مفادات کے تحفظ سے ہے۔