نئی دہلی/17 دسمبر
حزب اختلاف کے اراکین کی شدید مخالفت کے درمیان حکومت نے آج لوک سبھا میں ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے کا بل پیش کیا۔
وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے آئین( 129ویں) ترمیمی بل 2024 اور یونین ٹیریٹری لاز (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا۔
کانگریس کے منیش تیواری نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں وفاقیت کا نظام ہے اور یہ بل آئین کے اس نظام کے مکمل خلاف ہے ۔
سماج وادی پارٹی کے دھرمیندر یادو نے بل کی مخالفت کی اور اسے آئین کی بنیادی روح کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے ان بلوں کو آمریت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے انہیں واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
کانگریس کے گورو گوگوئی نے اس بل کو ملک کے ووٹروں کے حق رائے دہی پر حملہ قرار دیا ہے ۔ انہوں نے بل کو پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) کو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ ان بلوں میں صدر جمہوریہ کو ریاستی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا پہلے سے زیادہ اختیار دیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کو ریاستی حکومتوں کو برطرف کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے جو کہ غلط ہے ۔
ترنمول کانگریس کے کلیان بنرجی نے بلوں کو آئین کی بنیادی روح کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی انتخابات وہاں کی حکومت کی میعاد پر منحصر ہوتے ہیں اور مرکزی انتخابات مرکزی حکومت کی میعاد پر منحصر ہوتے ہیں تو پھر ایک ساتھ انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس میں ریاستوں کی خود مختاری کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ ایک ہی پارٹی ہمیشہ نہیں رہتی اور ایک دن اقتدار میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہ انتخابی اصلاحات نہیں، صرف ایک شخص کی خواہش پوری کرنے کا بل ہے ۔
ڈی ایم کے کے ٹی آر بالو نے بل کو جے پی سی کو سونپنے کا مطالبہ کیا۔
پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ اس میں تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہے اور اسپیکر اوم برلا نے خود کہا ہے کہ وہ تمام پارٹیوں کے لیڈروں کو اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیں گے ۔
انڈین یونین مسلم لیگ ( آئی یو ایم ایل ) کے ای ٹی بشیر نے اس بل کو آئین پر حملہ قرار دیا۔ شیوسینا کے انل یشونت دیسائی نے بل کو ملک کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی مقننہ کے حقوق کو کم نہیں کیا جانا چاہئے ۔
گوگوئی نے کہا کہ صدر جمہوریہ صرف وزراءکی کونسل سے مشورہ لیتے ہیں، وہ الیکشن کمیشن سے مشورہ نہیں لے سکتے ۔ اس بل کی شقوں کے مطابق اب صدر الیکشن کمیشن سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ وہ اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔ اس بل میں الیکشن کمیشن کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔
گوگوئی نے کہا ’اگر بھارتیہ جنتا پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم سے تمام انتخابات چھین لے گی، تو یہ غلط فہمی میں ہے ۔ یہ بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے ، وہ اس بل کی مخالفت کرتے ہیں‘۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے کہا کہ اس بل کے نفاذ سے ریاستوں میں صدر راج کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل ایک آدمی کی انا کو بڑھانے کے لیے لایا گیا ہے ۔ میں اس بل کی مخالفت کرتا ہوں۔”
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار) کی سپریا سولے نے کہا کہ یہ بل وفاقیت اور آئین کے خلاف ہے ۔ ایم پی اور ایم ایل اے پانچ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، انہیں درمیان میں کیوں ہٹایا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس بل کی مخالفت کرتی ہیں ۔ بل کو واپس لیا جائے یا اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا جائے ۔
انقلابی سوشلسٹ پارٹی کے این کے پریما چندرن نے کہا کہ وہ بل کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ یہ وفاقیت کی بنیادی روح کے خلاف ہے ۔ اس کو لانے سے وفاقیت کے ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس پر جامع بحث ہونی چاہیے تھی۔
قانون اور انصاف کے وزیر مملکت ارجن رام میگھوال نے کہا کہ یہ آئینی ترمیمی بل آئینی ہے اور اس سے کسی بھی طرح ریاست کے اختیارات میں کمی نہیں آتی۔ اس بل کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ اس سے نہ تو پارلیمنٹ کی طاقت کم ہو رہی ہے اور نہ ہی مقننہ کے اختیارات کم ہو رہے ہیں ۔
میگھوال نے کہا کہ اگر ہم آئین کی کسی فہرست میں ترمیم نہیں کر رہے ہیں تو وفاقی ڈھانچے پر حملہ کیسے ہو گا۔ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم را¶ امبیڈکر نے بھی کہا تھا کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ ہم آئین کے کسی شیڈول میں کوئی ترمیم نہیں کر رہے ہیں ۔
سابق صدر رام ناتھ کووند کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بل بہت تفصیلی بحث کے بعد لایا گیا ہے ۔ اس حوالے سے کل جماعتی اجلاس میں بھی بحث ہوئی جس میں اکثریت ترمیم کے حق میں تھی۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ یہ بل 41 سال سے زیر التوا تھا اور وزیر اعظم مودی نے فیصلہ کرکے اسے تبدیل کرنے کا عزم کیا ہے ۔ انہوں نے دونوں بلوں کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کی۔
اس سے پہلے لوک سبھا میں حکمراں بی جے پی کے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کو آگے بڑھانے کے لئے منگل کو آئین میں ترمیم اور ایک ساتھ وفاقی اور ریاستی انتخابات کی اجازت دینے کے لئے دو بل پیش کرنے کے لئے تقسیم ووٹنگ ہوئی۔
قوانین کے مطابق بلوں کو باضابطہ طور پر سادہ اکثریت سے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے۔ بل کے حق میں 269 اور مخالفت میں 198 ووٹ پڑے۔ تاہم اس فرق کو ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ بل کے ناقدین نے تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اس مرحلے پر بھی بلوں کو منظور کرنے کے لیے حمایت کا فقدان ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیکم ٹیگور نے ای ووٹنگ سسٹم کے اسکرین شاٹ کے ساتھ ایکس پر کہا کہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کی تجویز دو تہائی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔۔ان کاکہنا تھا”کل 461 ووٹوں میں سے دو تہائی اکثریت (یعنی 307) کی ضرورت تھی۔ لیکن حکومت نے صرف (269) حاصل کیے، جبکہ اپوزیشن کو 198 ملے۔“