شام میں بشار الاسد کے دور اقتدار کی شام ہو گئی ہے… نہیں صاحب ہم شام کے بارے میں کچھ کہنے اور لکھنے نہیں جا رہے ہیں کہ… کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے… شام میں کیا ہوا ‘کیسے ہوا ‘کیوں ہوا اور اب کیا ہو گا؟ان سوالات کا جواب ہم نہیں جانتے ہیں ‘ یہ ہمارا کام نہیں ہے …اس لئے نہیں ہے کیوں کہ ہم اس ملک سے ہزاروں میل کی دوری پر ہیں… ہمارے اپنے اتنے مسائل ہیں کہ … کہ انہیں گننے دن اور ہفتے لگ جائیں گے… اس لئے اچھا ہے … ہمارے لئے اچھا ہے ہم اپنے مسائل کی بات کریں … اپنی بات کریں ‘ کسی اور کی نہیں ‘ خاص کر ان کی جن سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے… اور اللہ میاں کی قسم شام کے ساتھ ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے… لیکن صاحب اس کے باوجود کشمیر میں کچھ لوگ… کچھ سیاستدان شام پر بات کررہے ہیں… کچھ اس اندا زمیں کررہے ہیں کہ جیسے ہمارے گھر کے ساتھ اس ملک کی سرحدیں مل رہیں ہوں… شام میں جو کچھ ہوا … بد امنی ‘خانہ جنگی ‘ اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش‘ پھر اس کوشش میں کچھ ممالک کا متحارب گروپوں کی حمایت اور مخالفت کرنا کل کی بات ہے… دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے… اس سے پہلے شام ایک پر امن ملک تھا …حتیٰ عرب بہار کے دوران بھی وہاں امن رہا۔اس کے پاس وقت ہی وقت تھا… ٹائم ہی ٹائم تھا کہ یہ کبھی ہماری بات کرتا… ہماری بھی خبر لیتا کہ… کہ جب شام میں امن تھا … کشمیر میں بد امنی تھی… یہاں خون بہہ رہا تھا … لوگوں کا خون بہایا جا رہا تھا … لیکن شام اور اس کے لوگ خاموش رہے … کچھ اس طرح کہ … کہ جیسے کشمیر میں کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا جبکہ کشمیر میں بہت کچھ ہو رہا تھا… یا سب کچھ ہو رہا تھا ۔ لیکن شام کے کان پر کبھی جو تک نہیں رینگی اور… اور آج جب بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا اور … اور وہ چوروں کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا تو… تو کشمیر میں کچھ لوگ… کوکچھ سیاستدان منہ کھول رہے ہیں… اور شام کے حالات و وقعات کے بارے میں بول رہے ہیں… کیوں بول رہے ہیں‘ یہ بات ہمار ی اس نا سمجھ‘ سمجھ میں نہیں آرہی ہے… بالکل بھی نہیں آ رہی ہے ۔اور کچھ اس طرح بول رہے ہیں جیسے ہمارے اپنے سارے مسئلہ حل ہو گئے ہیں اور اب شام کا مسئلہ حل کرنا باقی رہ گیا ہے ۔ ہے نا؟