اپوزیشن اتحاد انڈیا بلاک میں اس کے اندرونی تضادات اور بعض اہم سیاسی معاملات کو لے کر ایک اور شگاف واضح طور سے پڑتا نظرآرہاہے۔ دہلی اسمبلی انتخابات، جو آئندہ فروری میں متوقع ہیں، کے حوالہ سے کیجریوال کی پارٹی عاپ کانگریس کے ساتھ کسی طرح کا گٹھ جوڑ مستر دکئے جانے کی صدائے باز گشت ابھی سنائی ہی دے رہی تھی کہ اتحاد کی لیڈر شپ (قیادت) کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اعتباریت اور نااعتباریت کو لے کر ایک زبردست ٹکرائو سامنے آرہاہے۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ جس کی پارٹی نیشنل کانفرنس انڈیا بلاک کی ایک اہم اکائی ہے نے ابھی چند روز قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اپوزیشن اتحاد کی قیادت کے تعلق سے بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کے حالیہ ریمارکس کے تناظرمیں اپنے خیالات کااظہار کیا ہی تھا کہ ہر سُو سے عمر کے بیانات کی تصدیق اور مخالفت میں بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اتحاد کی قیادت کے سوال پر عمر کا کہنا ہے کہ آپ قیادت کو دوسروں پر مسلط نہیں کرسکتے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اعتباریت کے تعلق سے عمر کا کہنا ہے کہ جب نتائج آپ کے حق میں آتے ہیں تو آپ اطمینان کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب نتائج آپ کے خلاف (مہاراشٹر) نتائج آتے ہیں تو آپ ووٹنگ مشین کی اعتباریت پر سوال اُٹھارہے ہیں۔ ان دونوں بیانات کو لے کر ترنمول کانگریس کے علاوہ کئی دوسری پارٹیوں نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ کے بیانات کی تائید کی ہے۔ سب سے حیران کن ردعمل حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اب تک سامنے آیا جس میں بی جے پی کی ایک خاتون لیڈرنے عمر کو ایک پختہ لیڈر قرار دے کر اس کے بیانات کی تائید کی ہے۔ لیکن کشمیرنشین پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجاد غنی لون نے عمر کے بیانات کو تقریباً بکائو اور بی جے پی کے چرنوں میںسجدہ ریز ہوکر سرنڈر کے طور پیش کردیا ہے۔
عمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بادی النظرمیں کانگریس کو نشانہ بنایا جبکہ ان کی پارٹی اور کانگریس کے درمیان رشتہ داری، ۱۹۴۷ء سے پہلے سے چلی آرہی ہے۔ یہاں تک کہ کانگریس نے بحیثیت حکمران پارٹی کے (مرکز اور جموں وکشمیرمیں) جموںوکشمیر کی منفرد اور خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی سمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، خود بانی نیشنل کانفرنس شیخ محمدعبداللہ کا تختہ اُلٹ کر رکھدیا، عمر کے والد فاروق عبداللہ کو بھی اقتدار سے بے دخل کرکے ۱۲؍ ارکان اسمبلی کی مدد سے اس کے بہنوئی غلام محمد شاہ کو تخت پر بٹھایا اور سب سے بڑھ کر ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ ساتھ آئینی ضمانتوں تک کی بیخ کنی کرکے جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکے عوام کو زندگی کے ہر شعبے میںمحتاج بناکے رکھدیا ۔ لیکن نیشنل کانفرنس نے کانگریس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔
اب کیا ہوا؟ کانگریس تو الیکشن میںبھی اس کی اتحادی رہی اور اسوقت بھی عمر حکومت کو باہر سے تعاون دے رہی ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عمر نے اس نوعیت کے بیانات دے کر دراصل ایک تیر سے بیک وقت کئی ایک شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس حکومت میں حصہ داری کی اُمید لے کر بیٹھی ہے اور راجیہ سبھا کی ایک اُمیدواروں کی بھی توقع رکھتی ہے۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ عمر نے بیانات دے کر ان توقعات کے آگے سوالیہ لگادیئے ہیں۔ لیکن سنجیدہ سیاسی حلقوں کی دلیل کچھ اور ہے اور جس دلیل میں بادی النظرمیںکچھ منطق اور وزن بھی محسوس کیا جارہا ہے ۔ وہ یہ کہ اتحاد میں شامل کسی ایک بھی اکائی نے حالیہ الیکشن کے دوران جموںوکشمیر آکر کسی انتخابی جلسے میں شرکت نہیں کی،خوداتحاد کی قیادت کرنے والی کانگریس پارٹی نے بھی نیم دلانہ شرکت کی جبکہ خود راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے آخری لمحات میں کچھ جلسوں سے خطاب کیا۔ راہل گاندھی نے سوپور حلقہ میںجلسہ سے خطاب کیلئے منتخب کیا جہاں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی، ضرورت جموں کے حلقوں میںالیکشن مہم میں شرکت کی تھی جو نہیں کی گئی ۔
ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے آواز صرف جموںوکشمیر کانگریس کی طرف سے بلند کی جارہی ہے، کانگریس کی مرکزی قیادت ہی نہیں بلکہ سارا اتحاد بلاک اس اشو پر خاموش ہے جو نیشنل کانفرنس کی قیادت کو کھٹک رہی ہے۔ اپوزیشن اتحاد بلاک سے وابستہ کسی ایک بھی اکائی نے پارلیمنٹ کے دونوں میں سے کسی ایک بھی ایوان میں کوئی تحریک پیش کی، نہ سوال کیا اور نہ ہی لپ سروس کی حد تک ہی کچھ کہا، اس سارے منظرنامہ کے تناظرمیں عمر کا غصہ اور گلہ شکوہ کیا بجا نہیں، واجبی نہیں اور بلاک کے ایک اتحادی کے طور بلاک کی خاموشی اور سرد مہری نیشنل کانفرنس کے لئے باعث تکلیف نہیں۔
اس مخصوص اشو کو لے کر جموںوکشمیر کانگریس کے اندرونی صفوں میں عمرعبداللہ کے بیانات کی روشنی میں بحث ہورہی ہے تو واجبی ہے کیونکہ عمر کے خیالات کا اس طرح کھل کر اظہار مقامی کانگریس قیادت کیلئے نئی پریشانیوں کا موجب بن سکتا ہے۔ ملکی سطح پر کانگریس قیادت کے جو کچھ نظریات ہیں، ایجنڈا ہیں، اگر اور مگر کی سیاست اور موقف ہے مقامی کانگریس قیادت کے مقامی معاملات اور اشوز کے تعلق سے انہیں نظرانداز کرکے یا کم اہمیت کے زمرے میں رکھتے ہوئے انہیں ملکی سطح کے معاملات کا قیدی نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ خاص کر اس صورت میں کہ جب فی الوقت کانگریس کی حیثیت بہت حد تک کمزور پڑ چکی ہے اور محض چھ حلقوں سے کامیابی کاحصول اس کی کسی بڑے دعویداری کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتی۔
اس تناظرمیں عمرعبداللہ بحیثیت وزیراعلیٰ کرکٹ کی اصطلاح میں اگر وکٹ کے دونوں اطراف سے کھیل رہا ہے یا ترجیح دے رہا ہے تو وہ کچھ بھی غلط نہیں کیونکہ جہاں اسے کشمیر کا تقریباً مکمل منڈیٹ حاصل ہے وہیں جموں کے حوالہ سے بھی اُس پر کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کو اپنی جگہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ مکمل منڈیٹ کے باوجود عمر کی قیادت میں حکومت کو نہ مکمل اختیارات حاصل ہیں اور نہ وہ فیصلہ سازی کی سمت میں کوئی کردار اداکرسکتے ہیں کیونکہ سارے اختیارات مرکز کے ہاتھ میں ہیں۔ اور مرکز فی الحال جموںوکشمیر پر اپنی انتظامی اور فیصلہ سازی کی پکڑ اور گرفت کو کمزور ہونے کے لئے آمادہ نہیں ۔
کانگریس کی قیادت کا مسلسل طور سے یہ دعویٰ کرتے رہنا کہ اس نے گذرے اگست میں جو قرارداد کشمیرکے حوالہ سے منظور کی ہے وہ اُس پر قائم ہے ، یہ ایک بھونڈی دلیل ہے ۔ قرارداد یں مرتب کرکے منظور کرنا ایک بات ہے انہیں عملی جامہ پہنانے کیلئے جہاں عرق ریزی درکار ہے وہیں سنجیدگی اور عہد بندی لازمی ہے۔ جواس حوالہ سے کانگریس خیمے سے نظرنہیں آرہی ہے ۔دیانتداری اور خلوص کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ تنقید یا کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی زحمت گوارا ہونی چاہئے تاکہ یہ معلوم کیاجائے کہ گریبان سے اُٹھنے والی کوئی بدبو نتھنو میں تو محسوس نہیں ہورہی ہے۔
۔۔۔۔