چلئے ایسا ہی سہی… اب اگر اسکولوں میں بھی پڑھانے کیلئے ہائبرڈ ماڈل متعارف کیا گیا ہے تو… تو ایسا ہی سہی ۔کچھ گھنٹوں کیلئے سکول جانا ہو گا… گھر واپسی پر کچھ گھنٹوں کی بریک اور پھر کچھ گھنٹوں کی آن لائن کلاسز … نہیں صاحب یہ ہمارا کوئی پلان ‘تجویز یا مشورہ نہیں ہے… بلکہ حکومت… عمرعبداللہ کی حکومت کا فیصلہ ہے … یہ فیصلہ کہ منگل سے اسکول گرمائی تعطیلات کے بعد دو بارہ کھلیں گے…تعطیلات میں کوئی توسیع نہیں ہو گی… ہاںکلاسز… کچھ کلاسز آف لائن اور کچھ آن لائن ہو ں گی… یعنی اب پڑھائی میں بھی ہائبرڈ ماڈل سرائیت کر گیا ہے…اب یہ پلان جس نے بھی بنایا ہے… اس کی ذہانت کی داد دینی پڑے گی اور… اور اس لئے دینی پڑے گی کہ یہ… یہ دھوبی کا کتا ‘گھر کا نہ گھاٹ کا ‘ جیسا معاملہ لگ رہا ہے … ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت پر اسکول کھولنے کا دباؤ تھا … سو اس نے اسکول کھولے… لیکن… لیکن ساتھ میں اسے اس بات کا احساس بھی تھا کہ ابھی موسم گرما ‘گرما گرم ہے اس لئے اس نے اسکول کے اوقات کار کو محدود کرکے …گھر میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا ہے… ا س سے کیا حاصل ہو گا… حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ‘ ہم نہیں جانتے ہیں… لیکن… لیکن ایک بات جو ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ اگر کسی فیملی میںدو تین بچے ہوں گے … ان تینوں بچوں کیلئے بیک وقت موبائل فون ‘ لیپ ٹاپ کا کمپیوٹر کا انتظام کیسے ہو گایہ ہم نہیں جانتے ہیں… بالکل بھی نہیں جانتے ہیں ۔یقینا صاحب ہم گرمائی تعطیلات میں توسیع کیخلاف تھے ‘ ہیں اور رہیں گے… لیکن صاحب یہ ہائبرڈ ماڈل…اس ہائبرڈ ماڈل سے بات کچھ جم نہیں رہی ہے …اور اس لئے جم نہیں رہی ہے کہ اس سے اچھا طریقہ یہی تھا کہ اسکولوں کے اوقات کار ۸ سے دن کے دو بجے تک متعین کئے جاتے … وہ کیا ہے کہ گرمی دن کے گیارہ ساڈھے بجے بھی ہو تی ہے اور دو بجے بھی … اس میں فرق ہے… لیکن زیادہ فرق نہیں ہے… لیکن اتنا ضرور تھا کہ بچے صبح صحیح وقت پر سکول جاتے اور… اور واپسی پر کچھ آرام بھی لر لیتے اور بعد ازاں گھر میں پڑھائی بھی کرتے … لیکن یہ ہائبرڈ ماڈل جتنا طلبا کیلئے پریشان کن نہیں ہوگا اس سے کئی گنا اساتذہ کیلئے ہو گا… اساتذہ سے ایک بار پوچھ کر تو دیکھ لیجئے ۔ ہے نا؟