نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ہدایت دی کہ جب تک عبادت گاہوں کے قانون۱۹۹۱کی درستگی سے متعلق معاملہ اس کے سامنے زیر التوا ہے ، مذہبی مقامات یا تیرتھ استھلوں کے سلسلے میں کوئی نیا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا یا ضلعی عدالتیں اس وقت تک سروے کا حکم نہیں دے سکتیں۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے یہ حکم دیا۔
بنچ نے کہا’’جب معاملہ (عبادت کے مقامات ایکٹ۱۹۹۱کے جائز ہونے سے متعلق) اس عدالت کے سامنے زیر سماعت ہے ، تو دوسروں کے لیے اس میں مداخلت کرنا مناسب نہیں ہوگا‘‘۔
تاہم، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نئے مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کا اندراج نہیں کیا جائے گا اور ضلعی عدالتوں کے ذریعے کوئی موثر حکم جاری نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے عرضیوں کے ایک گروپ پر غور کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے نفاذ کی درخواست پر بھی مرکز کی طرف سے کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ہے ۔
اس حقیقت کے پیش نظر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ۱۹۹۱کے قانون کی درستگی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اپنا جواب داخل کرنے کیلئے مزید چار ہفتے کا وقت دیا۔
سپریم کورٹ کے نو تشکیل شدہ بنچ نے کہا کہ مقدمہ دائر ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی…جب معاملہ اس عدالت میں زیر سماعت ہے تو کیا دوسروں کے لیے مناسب نہیں ہوگا کہ جب تک ہم معاملے کی تحقیقات نہیں کرلیتے تب تک کوئی موثر آرڈر یا سروے آرڈر پاس نہیں کیا جا سکتا۔
پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے رام مندر تحریک کے عروج پر عبادت گاہوں کا ایکٹ۱۹۹۱نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد۱۵؍اگست۱۹۴۷کو موجود مذہبی مقامات کی حیثیت کا تحفظ کرنا تھا ۔
پورے ملک میں مساجد اور درگاہوں سمیت مختلف مذہبی مقامات پر سروے کرنے کیلئے تقریباً۲۰ مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں مسلم جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون کی دفعات کی خلاف ورزی ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پلیسیس آف ورشپ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کورٹ کے اس عبوری فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کی موجودگی کے باوجود مقامی عدالتوں نے اس قانون کو بے معنی بنا دیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال۱۹نومبر کو اترپردیش کے شہر سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف مقامی عدالت میں مقدمہ داخل کیا گیا جس پر اسی روز سماعت ہوئی اور اسی روز ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کرکے مسجد کے سروے کا حکم دیا گیا۔
عدالت کی جانب سے مقرر ایڈووکیٹ کمشنر نے اسی روز مسجد کا سروے کیا۔ لیکن وہ دوبارہ ۲۴ نومبر کی صبح کو ہندو فریقوں کے وکیل وشنو جین ایڈووکیٹ اور متعدد غیر متعلق افراد کے ساتھ مسجد گئے اور اس کا دوبارہ سروے کیا۔
اس موقع کی وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وکیل کے ساتھ چلنے والی بھیڑ مذہبی نعرے لگا رہی تھی۔
اس موقع پر وہاں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات تھی۔ اسی دوران وہاں تشدد پھوٹ پڑا جس میں پولیس کی جانب سے پہلے لاٹھی چارج اور شیل چھوڑے گئے اور پھر گولی چلائی گئی۔ اس تشدد میں پولیس کے مطابق چار اور میڈیا کے مطابق پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد ایک ہندو تنظیم کی جانب سے راجستھان کے شہر اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت میں درخواست داخل کی گئی۔ عدالت نے حکومت سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کر دئے۔