سرینگر میں زیرتعمیر نیا رنگ روڈ پروجیکٹ کنٹروورسی کی زد میں آگیا ہے۔ جبکہ اس کے محض چند روز قبل پہلگام تک ریلوے لائن کی تعمیر کے مجوزہ منصوبے کے حوالہ سے وابستہ امورات بھی مخالفت کا نشانہ بن گئے۔ دونوں معاملات کے تعلق سے مخالفت تقریباً یکساں نوعیت کی ہے۔ جن لوگوں سے ان دونوں پروجیکٹوں کی تعمیر کیلئے زمین لی جارہی ہے وہ مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ ان متاثرین کا صرف ایک مدعا ہے جو بے حد اہمیت کا حامل ہے اور توجہ اور غور طلب ہے ۔ اس کا تعلق پروجیکٹوں کیلئے اراضی کی تحویلگی کے بعد جو لوگ متاثر ہوں گے وہ اپنا روزگار کہاں سے اور کن ذرائع سے حاصل کریں گے۔
بے شک جو اراضی ان دونوں پروجیکٹوں کیلئے نشاندہی کے بعد حاصل کی جارہی ہے اس کا مقررہ معاوضہ متاثرین کو اداکیاجائے گا لیکن معاوضہ کی ادائیگی کے بعد ان کیلئے کوئی حقوق روز گار وغیرہ کے حوالہ سے ختم ہوجائیں گے کیونکہ انہیں ایسی کوئی ضمانت نہیںدی جارہی ہے کہ مستقبل کے تعلق سے ان کے روزگار کو یقینی بنایاجائے گا۔ متاثرین کیلئے یہ بہت بڑی پریشانی ہے اور اس کا اظہار اب وہ پروجیکٹوں کی مخالفت کا راستہ اختیار کرکے کررہے ہیں۔
ان دونوں پروجیکٹوں کا تعلق بظاہر کسی سیاسی فکر یا سیاسی ایجنڈا سے نہیں ہے لیکن کچھ سیاسی باالخصوص پی ڈی پی نے رنگ روڈ کے حوالہ سے مخالفت کرکے کچھ سیاسی نوعیت کے سوالات یا خدشات کا اظہار کیا ہے اور حالیہ منتخبہ عمر عبداللہ کی قیادت میںحکومت سے اس امر کی وضاحت طلب کی ہیں کہ کیا رنگ روڈ کے دونوں جانب جو رہائشی بستیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے ان میں کن لوگوں کو بسایا جارہا ہے اور یہ کہ کیا ان پروجیکٹوں کا تعلق کشمیرکی آبادی کے کردار میں تبدیلی کے خفیہ منصوبوں سے ہے ؟
یہ پروجیکٹ چاہے رنگ روڈکا ہے یا ریلویز کاہے موجودہ حکومت نے نہ وضع کئے اور نہ یہ اس کی اختراع ہے۔ ان پروجیکٹوں کے حوالوں سے متعلقہ اتھارٹیز کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری نوٹیفکیشنوں کا حوالہ ریکارڈ پر دستیاب ہے۔لیکن پی ڈی پی نے رنگ روڈ پر وجیکٹ کو باالخصوص نیشنل کانفرنس حکومت کی تخلیق قرار دے کران سے وضاحت طلب کرلی۔ نیشنل کانفرنس وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے اور پروجیکٹ کے حق بلکہ اس کے افادی پہلوئوں کو لے کر اس پروجیکٹ کو اہم قرار دیتے ہوئے اسے Ownکیا۔ یہ واضح کیا کہ جو بستیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے وہ مقامی لوگوں کیلئے مخصوص ہوں گی اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت کی طرف سے اس بارے میں علیحدہ بیان جاری کیا جارہاہے ۔
چلئے ایک پہلو سے مطلع صاف ہوا۔ اب جبکہ حکومت نے رنگ روڈ پرو جیکٹ کی ملکیت کا اعلان کردیا ہے لازم ہے کہ متاثرین جو مطالبات کررہے ہیں یا روزگار کے حوالہ سے جس ضمانت کیلئے آواز بلند کررہے ہیں حکومت انہیں مطمئن کرے، مدعا واقعی صرف اس حد تک نہیںکہ جن سے اراضی حاصل کی جارہی ہے انہیں معاوضہ اداکردیاجائے گا اور اس طرح وہ زمین کی ملکیت سے آزادہوں گے بلکہ دو بُنیادی معاملات وابستہ ہیں جو ہر اعتبار سے سنجیدگی کا تقاضہ کررہے ہیں۔
ایک کا تعلق متاثرین کے روزگار سے ہے، دوسرے کا تعلق زرعی زمین اور پھر گرین کور سے مزید محرومی کا ہے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ کشمیر میںحالیہ دہائیوں کے دوران زرعی اور ہارٹیکلچر کے تحت جو اراضی ۱۹۴۷ء تک تھی وہ کافی حد تک سکڑ چکی ہے یہاں تک کہ جنگلات سے وابستہ اراضی کا حجم بھی ان گذری دہائیوں کے دوران کافی حد تک گھٹ چکا ہے۔اس حوالہ سے جو اعداد وشمارات دستیاب ہیں ان کا ۱۹۴۷ء تک کے حجم اور اعداد وشمارات کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ساری حقیقت سامنے آجائیگی۔ یہ امر بھی ناقابل تردید بن چکا ہے کہ انہی برسوں کے دوران کشمیر اپنی مقامی زرعی پیداوار سے بہت حد تک محروم ہوتا گیا۔ نتیجہ کشمیر کی محتاجی کی صورت میں برآمد ہوتا جارہا ہے۔
ترقی کیلئے پروجیکٹوں کی تخلیق ، عمل آوری اور دوسرے وابستہ امورات ناگزیر ہے لیکن ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آبادی کا کوئی طبقہ تکلیف میں مبتلانہ ہو، وہ روزی روٹی اور چھت سے محروم نہ ہونے پائے، جواراضی مالکان سے پروجیکٹوں کی عمل آوری کیلئے سرکار یا اس کے ادارے حاصل کرتے ہوں متاثرین کے حقوق اور مفادات کا پروجیکٹوں کی عمل آوری کے ساتھ ساتھ بلکہ ایک ان مٹ حصے کے طور تحفظ یقینی بنائے ،لیکن جموں وکشمیر کے حوالہ سے فی الوقت تک ایسی کوئی خاص روایت موجود نہیں۔ زمین حاصل کی جارہی ہے ، معاوضہ حکومت اور اس کے ادارے من مانے طریقے پر مقرر کرکے ادارکرتے ہیں اور بس اپنے فرائض انہی دو امورات تک محدود تصور کرکے دامن چھڑالیتے ہیں۔ یہ طریقہ کار آمرانہ اور جاگیر دارانہ ذہنیت اور طریقہ کار سے ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی اور ناانصافی سے بھی عبارت ہے۔
رنگ روڈ کے دونوں اطراف میں ایک لاکھ ۱۸؍ ہزار کنال پر مشتمل رہائشی بستیوں کی تعمیر ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کی عمل آوری کیلئے سالہاسال درکار ہوں گے۔ رہائشی یونٹوں کے ساتھ ساتھ سکولوں، ہسپتالوں ،صحت کے ذیلی مراکز ، شاپنگ مال، پیٹرول ڈیزل اسٹیشنوں، ریستورانوں، چھوٹے درمیانہ درجے کے کاروباری یونٹوں کی تعمیر اور قیام علیحدہ اشو ہوگا۔ ان بُنیادی سروسز کیلئے لوگ سامنے توآتے رہینگے لیکن متاثرین جو زخموں پر نمک پاشی کے برابر معاوضہ حاصل کریں گے وہ اپنے سامنے اپنے مستقبل کو تاریک ہی پائیں گے ۔ ان کے اس درد کا مداوا کون کرے؟
اسی صورتحال کا سامنا مجوزہ ریلوے لائن کی تعمیر کی زدمیں آرہی اراضی مالکان کو ہے ۔ وہ بھی دہائی دے رہے ہیں کہ ان کی زرعی زمین ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے جوا ن کا روزگار کے حوالہ سے واحد سہارا ہے۔ اگر چہ اس پروجیکٹ کی تعمیر میں بھی سالہاسال درکار ہوں گے لیکن متاثرین کی پریشانیوں اور مشکلات کا آغاز ابھی سے ہونے جارہا ہے۔ پہلگام تک ریلوے لائن کی توسیع کا منصوبہ اتنا اہم نہیں لیکن اس پروجیکٹ کے حوالہ سے سیاسی پہلو صاف طور سے بھی اور پوشیدگی کے حوالہ سے بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ اگر چہ ریلوے لائن اننت ناگ سے فی الوقت ہوکر گذرتی ہے اور سڑک کا رابطہ بھی قابل اعتماد ہے لیکن اس کے باوجود پروجیکٹ کی تعمیر پر اصرار ناقابل فہم ہے۔