جانتے تھے اور پہلے سے جانتے تھے… جانتے ہی نہیں تھے بلکہ مانتے بھی تھے کہ گورے گورے بانکے چھورے‘عمرعبداللہ کو جلد گھٹن محسوس ہو گی… اور اس گھٹن میں انہیں کام کرنے کا جی نہیں چاہے گا…اور اس لئے نہیں چاہے گا کیونکہ وہ کچھ کام نہیں کر پائیں گے… لیکن کیا کیجئے گا کہ انہیں وزیر اعلیٰ بننا تھا… ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بننا تھا … اس لئے اب بھگتیں … اس لئے بھگتیں کہ انہیں سچ میں گھٹن ہو رہی ہے… انہیں کرنے کو کچھ نہیں ہے… لیکن کہنے کو بہت کچھ ہے… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح یہ چاہنے کے بعد کچھ کر نہیں پا رہے ہیں… اسی طرح یہ چاہنے کے باوجود وہ کچھ کہہ نہیں پا رہے ہیں… اسی لئے یہ خود بھی خاموش ہیں اور اپنے پارٹی لیڈروں کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کررہے ہیں… اور اس لئے کررہے ہیں کہ… کہ ایک اکیلے عمر صاحب نہیں ہیں جنہیں گھٹن محسوس ہو رہی ہے… ان کی پارٹی کے دوسرے لوگوں کو بھی یہ گھٹن محسوس ہو رہی ہے… مٹھی بھر وزراء کے ساتھ ساتھ ممبران اسمبلی کی فوج کو بھی ہو رہی ہے… اور یہ این سی حکومت کیخلاف کوئی سازش نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے کہ… کہ کشمیر… جموں کشمیر ایک یو ٹی ہے اور… اور یو ٹی میں وزیر اعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہو ئے ہوتے ہیں… ان کے وزراء کو بھی… یہ ہاتھ بندھے رہیں گے… اور سو فیصد بندھے رہیں گے… اُس وقت تک رہیں گے جب تک نہ جموں کشمیر ایک بار پھر ریاست بن جاتی ہے… اور جموں کشمیر کب ریاست بن جائیگی… اس بارے میں اپنے گورے گورے بانکے چھورے کچھ نہیں جانتے ہیں… سوائے اس ایک بات کے کہ انہیں امید ہے… صرف امید‘ یقین نہیں … بالکل بھی نہیں ہے… انہیں امید ہے کہ شاید مارچ تک یا مارچ میں کوئی بات بن جائے … اس لئے یہ تب تک اپنے ساتھیوں کو کوئی بات نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں… وہ مشورہ جس پر یہ روز اول سے عمل کررہے ہیں کہ… کہ وزیر اعلیٰ خاموش ہیں… اور ان کی اس خاموشی سے یقینا انہیں گھٹن ہو رہی ہے… لیکن… لیکن اللہ میاں کی قسم صرف انہیں ہی گھٹن محسوس نہیں ہو رہی ہے… بلکہ ان کی اس خاموشی سے پوری قوم کو بھی گھٹن محسوس ہو رہی ہے اور… اور سو فیصد ہورہی ہے ۔ ہے نا؟