نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے آج کہا کہ ممبئی حملوں کے دہشت گرد اجمل قصاب کا بھی اس ملک میں منصفانہ ٹرائل ہوا تھا اور اس نے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو ذاتی طور پر پیش ہونے کے لئے جموں کی عدالت کے حکم کو سی بی آئی کے چیلنج پر سماعت کی۔
یہ معاملہ ۱۹۹۰ میں سرینگر کے مضافات میں ہندوستانی فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل اور۱۹۸۹ میں اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا سے متعلق ہے۔ یاسین ملک دونوں مقدمات میں مرکزی ملزم ہے۔
ملک دہلی کی تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ کے معاملوں کی سماعت کرنے والی ایک عدالت نے ملک کو ذاتی طور پر پیش ہونے کے لئے کہا تھا۔ ملک نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہونا چاہتے ہیں۔
سی بی آئی نے جموں عدالت کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی جسمانی پیشی جموں و کشمیر میں ماحول کو خراب کر سکتی ہے اور ان کے خلاف گواہوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
مرکزی ایجنسی کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے جسٹس اے ایس اوکا اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ سے کہا’’ہم انہیں جموں و کشمیر نہیں لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ جسٹس اے ایس اوکا نے استفسار کیا’’لیکن وی سی (ویڈیو کانفرنس) میں جرح کیسے کی جا سکتی ہے‘‘۔ بنچ نے جموں میں خراب انٹرنیٹ کنکٹیویٹی کا ذکر کیا۔
مہتا نے کہا کہ اگر ملک ذاتی طور پر پیش ہونے پر بضد ہیں تو مقدمے کو دہلی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علیحدگی پسند رہنما اس بات پر زور دے کر چال بازی کر رہے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔
سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ملک صرف ایک اور دہشت گرد نہیں ہے۔ اس پر جسٹس اوکا نے کہا’’ہدایات لیں کہ ٹرائل میں کتنے گواہ ہیں۔ ہمارے ملک میں اجمل قصاب کو بھی منصفانہ ٹرائل دیا گیا‘‘۔
مہتا نے کہا کہ حکومت ایسے معاملوں میں کتابوں کے مطابق نہیں چل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکثر پاکستان جاتے تھے اور حافظ سعید کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے تھے۔
بنچ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سماعت کے لئے جیل میں ایک عدالت قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے مرکز سے کہا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ کتنے گواہ پیش ہوں گے اور ان کی حفاظت کے انتظامات کئے جائیں گے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جج کو صرف اس عدالت کیلئے جیل میں کیسے تعینات کیا جائے گا۔ اس معاملے کی اگلی جمعرات کو دوبارہ سماعت ہوگی۔