جموں//
جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جے ڈی اے) نے جموں شہر میں بے گھر کشمیری پنڈتوں کی ایک درجن دکانوں کو مبینہ طور پر نوٹس جاری کیے بغیر مسمار کردیا ہے، جس کے بعد مختلف طبقوں نے احتجاج کیا اور عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ تین دہائی قبل مٹھی کیمپ کے قریب بے گھر کشمیری پنڈتوں کی جانب سے تعمیر کی گئی دکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بدھ کو انہدام مہم شروع کی گئی تھی۔
پرانی دکانیں جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جے ڈی اے) کی زمین پر واقع تھیں۔
ریلیف کمشنر‘ اروند کاروانی نے صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے علاقے کا دورہ کیا اور متاثرہ کنبوں کو یقین دلایا کہ علاقے میں ان کے لئے نئی دکانیں تعمیر کی جائیں گی۔
کاروانی نے کہا’’یہ دکانیں جے ڈی اے کی زمین پر تھیں۔ امدادی تنظیم نے مٹھی کیمپ فیز ٹو میں شاپنگ کمپلیکس کی تعمیر کے لئے ٹینڈر جاری کیے ہیں۔ دس دکانیں جلد ہی تعمیر کی جائیں گی اور ان دکانداروں کو الاٹ کی جائیں گی‘‘۔
بی جے پی، پی ڈی پی اور اپنی پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور کئی کشمیری پنڈت تنظیموں نے جے ڈی اے کے اقدام کی مذمت کی اور بے گھر ہونے والی برادری کے لئے نئی دکانوں کی تعمیر کا مطالبہ کیا تاکہ ان کی روزی روٹی کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکے۔
اپنی مسمار کی گئی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے مالک کلدیپ کسرو نے کہا’’بہتر سہولیات اور مالی مدد فراہم کرکے ہماری مدد کرنے کے بجائے، اس حکومت نے ہماری دکانوں کو بلڈوز کرکے ہماری روزی روٹی چھین لی ہے‘‘۔
ایک اور دکاندار، جاو لال بھٹ، جنہوں نے ۱۹۹۱ میں ٹین شیڈ میں اپنی دکان کھولی تھی، نے کہا’’ہم اپنے کنبوں کا پیٹ کیسے بھر سکتے ہیں، جب ہم صرف ان دکانوں سے ہونے والی کمائی پر منحصر ہیں؟ ہم لیفٹیننٹ گورنر اور چیف منسٹر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کریں اور ہمیں انصاف دیں‘‘۔
ایک اور دکاندار جواہر لال نے انہدام کو ’سراسر غنڈہ گردی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا’’انہدام کیلئے ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا‘‘۔
مٹھی مہاجر کیمپ کے صدر انیل بھان نے انہدام کے وقت پر تنقید کی۔ان کاکہنا تھا’’اسے ایک اور مہینے تک انتظار کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ امدادی محکمہ پہلے ہی کیمپ کے اندر ان کے لیے دکانیں بنا رہا ہے۔ اس افسوسناک واقعہ سے بچا جا سکتا تھا‘‘۔
پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے متاثرہ دکانداروں کی ایک کلپ ایکس پر شیئر کی اور وزیر اعلی عمر عبداللہ پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کو ہمدردی اور فوری طور پر حل کریں۔
محبوبہ نے کہا کہ دل دہلا دینے والے مناظر اس وقت سامنے آتے ہیں جب کشمیری پنڈت دکاندار اپنی مسمار شدہ دکانوں کے ملبے کے سامنے بے بس کھڑے ہیں، جنہیں مبینہ طور پر جے ڈی اے نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے گرا دیا تھا۔ یہ عمل ان کے الگ تھلگ ہونے اور نقصان کے احساس کو مزید گہرا کرتا ہے۔
بی جے پی ترجمان جی ایل رینا نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے بعد کہا’’ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلی عمر عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس،کانگریس حکومت کی واپسی کے فورا بعد یہ انتقامی کارروائی ہے‘‘۔
ان کاکہنا تھا’’جے ڈی اے کو ان کنبوں کو متبادل فراہم کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کو اس بے بس کمیونٹی کو نشانہ بنانا بند کرنا چاہئے‘‘۔
اپنی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور سابق ایم ایل اے وجے بکایا نے مایوسی کا اظہار کیا اور جے ڈی اے کے ارادوں پر سوال اٹھایا۔
بکایا کاکہنا تھا’’مٹھی میں تقریباً۳۰ سال سے کشمیری پنڈت تارکین وطن کے ذریعے چلائی جا رہی کئی دکانوں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ اگر ان دکانوں کو کسی جائز وجہ سے ہٹانا تھا تو نوٹس دیا جانا چاہئے تھا اور متبادل مقامات فراہم کیے جانے چاہئے تھے۔ حکام کی جانب سے یہ اشتعال انگیز کارروائی انتہائی قابل مذمت ہے۔‘‘