سرینگر/۶نومبر
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ اسمبلی نے سابق ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے مرکز اور منتخب نمائندوں کے درمیان بات چیت کے لئے ایک قرارداد منظور کرنے کے بعد اپنا کام کیا ہے۔
یہ قرارداد، جس میں خصوصی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ہٹائے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، بغیر کسی بحث کے منظور کر لیا گیا کیونکہ اسپیکر نے شور شرابے کے درمیان اسے صوتی رائے شماری کے لیے پیش کیا۔
عبداللہ نے اسمبلی کمپلیکس کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا” اسمبلی نے اپنا کام کیا ہے۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا“۔
جموں و کشمیر کے نائب وزیر اعلی سریندر سنگھ چودھری نے بدھ کے روز قانون ساز اسمبلی میں خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے قرارداد پیش کی۔
اس قرارداد کی حمایت وزیر صحت و تعلیم سکینہ ایٹو نے ایوان میں کی۔
جیسے ہی یہ قرارداد ایوان میں لائی گئی، بی جے پی اراکین اسمبلی نے یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ اسے آج ایوان کے کام کاج میں شامل نہیں کیا گیا۔
پانچ سال قبل بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا تھا۔ اس اقدام کو قانونی طور پر چیلنج کیا گیا تھا ، اور پچھلے سال دسمبر میں ، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کو "عارضی” شق قرار دیتے ہوئے منسوخی کو برقرار رکھا تھا۔
اسمبلی نے صوتی ووٹ سے قرارداد منظور کی جس میں مرکز سے کہا گیا کہ وہ خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرے۔
جیسا کہ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا، یہ قرارداد ڈپٹی چیف منسٹر سریندر سنگھ چودھری نے پیش کی تھی جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ‘، جو جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کی حفاظت کرتی ہے، اور انہیں یکطرفہ طور پر ہٹائے جانے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
قرار داد میں حکومت ہند پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کرے۔
بی جے پی ایم ایل اے اس اقدام کے خلاف ایوان کے وسط میں آ گئے جس پر ایوان میں ہنگامہ ہوا۔ اسپیکر کی جانب سے قرارداد صوتی ووٹ سے منظور کیے جانے کے بعد وہ’نیشنل کانفرنس شرم کرو‘ اور ’پاکستانی ایجنڈا نہیں چلے گا‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
”یہ ملک مخالف ایجنڈا ہے۔ ہم قرارداد کو مسترد کرتے ہیں“،بی جے پی رہنماو¿ں نے ایوان کے وسط میں گھسنے کے بعد نعرے بازی کی۔
بی جے پی لیڈر شام لال شرما ایوان کے وسط میں میز پر چڑھ گئے اور کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات اور جذبات سے کھیلنے کے لئے 1947 سے نیشنل کانفرنس کی چال چل رہی ہے۔
ان کاکہنا تھا”کل، آپ کوئی اور زبان بول رہے تھے۔ آرٹیکل 370 حتمی ہے اور یہ سیاسی چال نہیں کرے گی۔ شیخ عبداللہ سے لے کر عمر عبداللہ تک جموں و کشمیر کی جذباتی بلیک میلنگ معمول کی بات رہی ہے“۔ بی جے پی رہنماو¿ں کی جانب سے ‘شرم کرو، شرم کرو’ کے نعرے لگانے پر شرما نے کہا کہ اسپیکر کو آزاد ہونا چاہیے اور کسی پارٹی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
ایوان کے وسط میں رہتے ہوئے بی جے پی اراکین اسمبلی نے نعرے لگائے….” جہاں ہووے بلیدن مکھرجی، وہ کشمیر ہمارا ہے“،” ملک دروہی ایجنڈا نہیں چلے گا، 5 اگست زندہ باد، ملک مخالف ایجنڈا نہیں چلے گا، بھارت ماتا کی جے، جے شری رام“۔
بی جے پی کے ایل او پی نے کہا کہ نیشنل کانفرنس شکراچاریہ ہلز کا نام تخت سلیمانی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ان کا ایجنڈا ہے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بی جے پی ایم ایل اے نے ایوان کے وسط میں رہ کر نعرے بازی کی۔