سرینگر//
کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے لیفٹیننٹ گورنر‘ منوج سنہا کی جانب سے جموں کشمیر یو ٹی کا یوم تاسیس منانے پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ۳۱؍اکتوبر کو ’یوم سیاہ‘ قرار دیا ہے ۔
سنہا نے یو ٹی یوم تاسیس کی تقریب میں شرکت نہ کرنے پر وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ اور ممبران اسمبلی کی تنقید کرتے ہوئے اسے ’دوغلہ پن‘ قرار دیا تھا۔
جموںکشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری نے واضح کیا کہ نیشنل کانفرنس نے یوٹی کو کھبی تسلیم ہی نہیں کیا ہے ۔
چودھری نے کہاکہ ایک ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنا لوگوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے ۔
ان باتوں کا اظہار نائب وزیر اعلیٰ نے جموں میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔
چودھری نے کہاکہ دیوالی جموں کشمیر کے لوگوں کے لئے خوشیوں کی نوید لے کر آئے ۔
نائب وزیر اعلیٰ نے کہاکہ جموںکشمیر ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لوگوں کی امنگوں اور توقعات کے برعکس تھا۔انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت نے ریاست کو یوٹی میں تبدیل کرکے لوگوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ جلدازجلد ریاستی درجے کی بحالی کا فیصلہ لیا جائے گا ۔
چودھری نے کہاکہ نیشنل کانفرنس وہ جماعت ہے جس نے لوگوں کی خاطرقربانیاں دی ہیں ۔
ادھر کانگریس صدر طارق قرہ نے منگل کے روز کہا کہ ۳۱؍ اکتوبر کو مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کے یوم تاسیس کے طور پر منانا جموں کشمیر کا’ سیاہ دن‘ ہے۔
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی ۴۰ ویں برسی کے موقع پر پارٹی ہیڈکوارٹر میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے قرہ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح سے پارٹی کے جشن کا حصہ نہیں بنیں گے۔
کانگریسی لیڈر کاکہنا تھا’’یو ٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات میں شرکت کیلئے کہنا جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے‘‘۔
قرہ نے کہا کہ یہ نظریہ بہت سے رہائشیوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ریاست کو ان کی رضامندی کے بغیر مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا ہے ، جس سے ان کی خودمختاری ختم ہوگئی ہے۔
جموں کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کے کانگریس پارٹی کے عزم کے بارے میں قرہ نے کہا کہ اس وعدے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ایوان اور جموں و کشمیر کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسمبلی کے اندر یا باہر یا سڑکوں پر مکمل ریاست کے درجہ کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
کانگریس کے یونٹ صدر نے ریاست کا درجہ روکنے کی وجوہات پر سوال اٹھایا، خاص طور پر اس وقت جب حکومت نے جموں و کشمیر میں سیکورٹی میں بہتری کا دعویٰ کیا تھا۔
سکیورٹی جائزوں کے بارے میں کانگریسی لیڈرنے کہا کہ اس عمل میں مقامی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کے پاس ’ جامع نقطہ نظر‘ کا فقدان ہے۔
قرہ نے کہا کہ سکیورٹی جائزہ میٹنگوں میں وزیراعلیٰ یا نمائندے کو شامل کیا جانا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ فرق سکیورٹی معاملات پر الجھن اور متضاد ہدایات کا باعث بن سکتا ہے، جس سے ریاست کی فلاح و بہبود اور قومی مفادات دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس دوران پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ‘محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ۳۱؍اکتوبر جموںکشمیر کے لوگوں کیلئے ایک سیاہ دن ہے ۔
محبوبہ کا ساتھ ہی کہناتھا’’ جب تک ہمارے خصوصی اختیارات واپس نہیں کئے جائیں گے تب تک یہ ہمارے لئے سیاہ دن ہی رہے گا‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار جمعرات کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں نامہ نگاروں کے ساتھ کیا۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’میں نے بار ہا یہ کہا ہے کہ جموں کشمیر بی جے پی کے لئے ایک لیبارٹری بن گیا ہے جس میں وہ مختلف تجربے کرتی ہے ‘‘۔
محبوبہ کا کہنا تھا’’اس طرح وہ ملک کے باقی اقلیتی طبقوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ جموںکشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود اس کے ساتھ کیا کرسکتے ہیں، ان کے خصوصی اختیارات چھین سکتے ہیں، ان کے وسائل کے ساتھ من مانی کرسکتے ہیں‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سال۱۹۴۷سے پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی ریاست کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کر دیا گیا ۔
محبوبہ نے کہا’’میرا یہ کہنا ہے کہ آج کا دن جموںکشمیر خاص طور پر پی ڈی پی کے لئے ایک کالا دن ہے اور ہمارے لئے یہ اس وقت تک کالا دن رہے گا جب تک ہمارے خصوصی اختیارات واپس نہیں کئے جائیں گے ‘‘۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’جب تک کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا تب تک پی ڈی پی کی جد وجہد جاری رہے گی‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا’’حالیہ اسمبلی انتخابات میں لوگوں نے بھاری اکثریت سے ایک سرکار منتخب کی ہے اس سرکار کو بھی یک جٹ ہو کر جہد وجہد کرنا ہوگی تاکہ جس مصیبت میں ہمیں پھنسایا گیا ہے ہم اس سے باہر نکل سکیں۔‘‘
اس دوران جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر اور ایم ایل اے ہندواڑہ سجاد لون نے جموں و کشمیر کے یونین ٹریٹری ڈے کو منانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے توہین آمیز اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی بے اختیاری کی یادگار قرار دیا ہے۔
’’وہ جموں کشمیر کے لوگوں کے زخموں پر نمک کیوں چھڑکیں‘‘؟ لون نے سوال اٹھاتے ہوئے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ جموں کشمیر کو بے اختیار بنانے کی نمائندگی کرنے والے اس دن کی دلیرانہ یاد منائی جا رہی ہے جو کبھی سیاسی طور پر بااختیار ریاست تھی اور اب اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
لون نے منتخب حکومت کو سختی سے مشورہ دیا کہ وہ ان یادگاروں سے دور رہے، جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو محکوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ہندوارہ کے ممبر اسمبلی کے مطابق، مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حیثیت اس خطے پر سایہ ڈالتی ہے، جو یا تو اس بات کا اشارہ ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ اپنے معاملات کو سنبھالنے سے قاصر ہیں یا یہ اشارہ دیتے ہیں کہ جموںکشمیر پر آزادانہ طور پر حکمرانی کرنے کے لئے ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔