سرینگر/۷اکتوبر
جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار ختم ہونے میں اب کچھ ہی گھنٹے باقی رہنے کے بیچ یونین ٹریٹری کے تمام بیس اضلاع میں ووٹوں کی گنتی کے لئے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ہے ۔
حکام نے بتایا کہ تمام ضلعی ہیڈ کوارٹروں پر ووٹوں کی خوشگوار اور ہموار گنتی کو یقینی بنانے کے لئے سیکورٹی کے کڑی انتظامات کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ووٹوں کے مراکز کے گرد و پیش تین دائروں والی سیکورٹی کی تعیناتی کو عمل میں لائی گئی ہے ۔
حکام نے شفافیت، درستگی اور گنتی کے نتائج کے بروقت اعلان کو یقینی بنانے کے لئے نگرانی اور حفاظتی اقدامات، بیٹھنے کے اِنتظامات، اِی وِی ایم کی ٹرانسپورٹیشن اور کاو¿نٹنگ ہال میں تکنیکی سیٹ اپ کو بھی حتمی شکل دی ہے ۔
حکام نے کہا کہ تمام نتائج کے اعلان اور پولنگ کا عمل 10 اکتوبر کو مکمل ہونے تک سیکورٹی میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے”امید واروں کے صرف مجاز کاﺅنٹنگ ایجنٹوں اور گنتی ڈیوٹی پر تعینات عملے کو ہی گنتی ہالوں کے اندر جانے کی اجازت ہوگی“۔
انہوں نے کہا کہ ہر امیدوار کے ووٹوں کی تعداد کا اعلان کا¶نٹنگ ہالز کے باہر پبلک ایڈریس سسٹم پر گنتی کے ہر دور کے بعد کیا جائے گا۔
جموں و کشمیر کی کل 90 اسمبلی سیٹوں میں سے وادی کشمیر میں 47 جبکہ جموں صوبے میں 43 سیٹیں ہیں۔
ان90 سیٹوں پر کل 873 امید وار اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں جب رائے دہندگان کی کل تعداد 88 لاکھ سے زیادہ تھی۔
سال رواں کے ان اسمبلی انتخابات میں جہاں کالعدم جماعت اسلامی نے بھی آزاد امید وار کھڑا کئے اور جیل میں بند علاحدگی پسند لیڈر سرجان برکاتی نے بھی دو سیٹوں سے الیکشن لڑے وہیں جموں کے آر ایس پورہ میں والمیکی سماج اور پاکستانی پناہ گزنیوں نے پہلی دفعہ اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔
یہ پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 کی تنیسخ اور دو یونین ٹریٹریوں میں تبدیل ہونے کے بعد جموں وکشمیر میں پہلے اسمبلی انتخابات تھے نیز یہ پہلی منتخب حکومت ہوگی جو جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ساتھ سابقہ ریاست کو لداخ کو چھوڑ کر مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے بعد تشکیل دی جائے گی۔
جموں وکشمیر میں دس برسوں کے طویل عرصے کے بعد تین مرحلوں پر اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے جن میں سے پہلا مرحلہ 18 ستمبر کو جبکہ دوسرا اور تیسرا مرحلہ بالترتیب25 ستمبر اور یکم اکتوبر نو منعقد ہوا۔
پہلے مرحلے میں24 سیٹوں کی پولنگ ہوئی تھی جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بالترتیب 26 اور 40 سیٹوں کی پولنگ ہوئی تھی۔
حکام کے مطابق تینوں مرحلوں کی پولنگ انتہائی پُر امن اور خوشگوار طریقے سے انجام پذیر ہوئی تھی۔ اسمبلی انتخابات میں ووٹنگ کی مجموعی شرح 63.45 فیصد ریکارڈ ہوئی۔
جہاں ایک طرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس الائنس جموں وکشمیر میں اگلی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے وہیں بی جے پی بھی جموں وکشمیر میں پہلی بار حکومت بنانے کے اپنے دعوے پر قائم ہے ۔
جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی تک حکومت سازی کو روک دیں: انجینئر رشید
سرینگر/۷اکتوبر
عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور رکن پارلیمان انجینئر شیخ عبدالرشید نے ان سیاسی جماعتوں اور آزاد امید واروں جو منگل کے روز کامیاب ہوں گے ، کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ تب تک حکومت نہ بنائیں جب تک نہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کو بحال کرے گی۔
رشید نے کہا”عوامی اتحاد پارٹی مکمل سپورٹ فراہم کرے گی اگر اس تجویز پر سب متحد ہوں گے “۔
رکن پارلیمان نے ان باتوں کا اظہار پیر کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
رشید نے کہا”میرے ان تمام سیاسی جماعتوں اور آزاد امید واروں جو کل کامیاب ہوں گے ، سے ایک تجویز ہے کہ وہ تب تک حکومت نہ بنائیں جب تک نہ مرکزی حکومت ریاستی درجے کو بحال کرے گی“۔
ان کا کہنا تھا”اگر تمام اس تجویز کے ساتھ اتفاق کریں گے تو عوامی اتحاد پارٹی اپنا بھر پور سپورٹ فراہم کرے گی“۔
رشید نے کہا کہ قدیم دربار مو کی روایت کو بحال کیا جانا چاہئے ۔انہوں نے کہا”انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ دربار مو کی روایت ختم کرکے انہوں نے خزانہ عامرہ کو ایک بھاری بوجھ سے بچایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدم سے دونوں علاقوں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے “۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس روایت کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہئے ۔
رکن پارلیمان نے کہا”میں کچھ روز قبل دہلی میں تھا جہاں میں نے دیکھا کہ جموں و کشمیر ہاﺅس کو لداخ کے لوگوں کے لئے مخصوص رکھا گیا ہے ، کیا یہ انصاف ہے ، جموں وکشمیر کی آبادی دو کروڑ ہے جبکہ لداخ کی آبادی زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ لاکھ ہے “۔
رشید نے کہا”اگر جموں وکشمیر کے لوگوں کو علاج، نوکری یا کسی دوسرے کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑے گا تو وہ کہاں جائیں گے “۔
بی جے پی کے ممکنہ اکثریت حاصل کرنے کے متعلق پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا”حکومت سازی میری ترجیح نہیں ہے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا میری ترجیح ہے “۔
ایل جی کو پانچ سیٹوں کی نامزدگی کا اختیار ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا”اپنی مرضی سے اراکین نامزد کرنے سے جموں و کشمیر انتظامیہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک ودھان، ایک نشان، ایک پردھان کے آئیڈیا کو چلینج کر رہی ہے “۔
رشید نے کہا”دلی کے لوگ جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے کیسے اراکین نامزد کر سکتے ہیں جب نتائج ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔“