نئی دہلی//
آرمی چیف جنرل اوپیندر دویدی نے منگل کے روز کہا کہ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر صورتحال مستحکم لیکن حساس اور نارمل نہیں ہے۔
جنرل دویدی نے کہا کہ اگرچہ تنازعہ کے حل کے لئے دونوں فریقوں کے مابین سفارتی بات چیت سے ایک ’مثبت اشارہ‘ سامنے آ رہا ہے ، لیکن کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد زمین پر موجود فوجی کمانڈروں پر منحصر ہے۔
فوجی سربراہ چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ پر ایک پردے اٹھانے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہندوستان اور چین نے جولائی اور اگست میں سفارتی بات چیت کے دو دور منعقد کیے تھے جس کا مقصد مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر اپنے تعطل میں زیر التوا مسائل کا جلد حل تلاش کرنا تھا۔
جنرل دویدی نے کہا کہ سفارتی جانب سے مثبت اشارے مل رہے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سفارتی فریق آپشنز اور امکانات فراہم کرتا ہے۔
آرمی چیف نے ایک سوال کے جواب میں کہا’’لیکن جب زمین پر عمل درآمد کی بات آتی ہے، جب اس کا تعلق زمین سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلے کرنے کیلئے دونوں اطراف کے فوجی کمانڈروں پر منحصر ہے‘‘۔
جنرل دیویدی نے کہا’’صورتحال مستحکم ہے، لیکن یہ نارمل نہیں ہے اور یہ حساس ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ اپریل ۲۰۲۰ سے پہلے کی صورتحال کو بحال کیا جائے‘‘۔
دونوں فریقوں کے درمیان فوجی تعطل مئی۲۰۲۰ کے اوائل میں شروع ہوا تھا۔ سرحدی تنازعہ کا مکمل حل ابھی تک حاصل نہیں کیا جاسکا ہے حالانکہ دونوں فریق ٹکراؤ کے متعدد مقامات سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ جب تک صورتحال بحال نہیں ہوتی، جہاں تک ہمارا تعلق ہے، صورتحال حساس رہے گی اور ہم کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مکمل طور پر یہ ٹرسٹ ’سب سے بڑا نقصان‘ بن گیا ہے۔
جنرل دویدی نے چین کے تئیں ہندوستانی فوج کے مجموعی نقطہ نظر پر بھی مختصر طور پر روشنی ڈالی۔ان کاکہنا تھا’’جہاں تک چین کا تعلق ہے، یہ کافی عرصے سے ہمارے ذہنوں کو دلچسپ بنا رہا ہے۔ اور میں کہتا رہا ہوں کہ چین کے ساتھ آپ کو مقابلہ کرنا ہے، آپ کو تعاون کرنا ہے، آپ کو ایک ساتھ رہنا ہے، آپ کو مقابلہ کرنا ہے‘‘۔
گزشتہ ماہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں بات چیت کی تھی جس میں تنازعہ کا جلد حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
برکس ممالک کے ایک اجلاس کے موقع پر ہونے والی بات چیت میں دونوں فریقوں نے مشرقی لداخ میں تنازعات کے باقی ماندہ مقامات سے مکمل طور پر دستبرداری حاصل کرنے کیلئے ’فوری‘ اور’دوگنی‘ کوششوں کے ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا۔
ملاقات میں قومی سلامتی کے مشیرڈوبھال نے وانگ کو بتایا کہ سرحدی علاقوں میں امن و امان اور ایل اے سی کا احترام دوطرفہ تعلقات میں معمول پر آنے کیلئے ضروری ہے۔
جون۲۰۲۰ میں وادیٔ گلوان میں شدید جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں کمی آئی تھی جو دہائیوں میں دونوں فریقوں کے درمیان سب سے سنگین فوجی تصادم تھا۔
بھارت کا موقف رہا ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک کہ سرحدی علاقوں میں امن قائم نہ ہو۔اس تعطل کو حل کرنے کیلئے دونوں فریق اب تک کور کمانڈر سطح کی بات چیت کے ۲۱ دور منعقد کر چکے ہیں۔
بھارت پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) پر دپسانگ اور ڈیمچوک کے علاقوں سے دستبرداری کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ فریقین نے فروری میں اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کا آخری دور منعقد کیا تھا۔