کیرن//
لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ واقع ایک گاؤں کیرن میں سرحدی سیاحت میں تیزی آنے کے ساتھ ہی گاؤں والے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں امیدواروں کو اپنی ترجیحات واضح کر رہے ہیں۔
ایل او سی پر براہ راست واقع اس گاؤں میں ایک منفرد پولنگ اسٹیشن ہے، جہاں۱۱۷۰ سے زیادہ رائے دہندگان ہیں۔
یہ کشن گنگا ندی کے ذریعے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) سے الگ ہے۔ ۴۰۰۰ سے زیادہ آبادی والی وادی کیرن، جو کبھی سرحد پار گولہ باری اور دراندازی کے لیے بدنام تھی، کو ۲۰۲۱میں سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا اور یہ تیزی سے ایک مقبول مقام کے طور پر ابھرکر سامنے آیا۔
ایک ایسی جگہ جہاں ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے رہائشیوں کو منتقل کر دیا گیا تھا، کیرن میں سیاحوں کی مسلسل آمد دیکھی جا رہی ہے، جنہیں گاؤں کا دورہ کرنے کے لیے کپواڑہ کے کرال پورہ پولیس اسٹیشن سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
سری نگر سے ۱۷۰ کلومیٹر دور واقع کیرن کے باشندے ان امیدواروں کی حمایت کرنے کے خواہاں ہیں جو ان کے علاقے کو ایک پھلتے پھولتے سیاحتی ہاٹ اسپاٹ میں تبدیل کرنے کی وکالت کریں گے، خاص طور پر جب اس وقت سڑک رابطے، موبائل نیٹ ورک اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات جیسی ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔
مقامی سیاست داں اصغر بھٹ نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ حکومت نے کیرن میں سرحدی سیاحت کا آغاز کیا ہے اور ہم اس کیلئے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مختلف ریاستوں سے آنے والے سیاحوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ’’کیرن آخری گاؤں نہیں بلکہ ملک کا دل ہونا چاہئے‘‘۔
سیاحت میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود، بھٹ نے نوٹ کیا کہ بہتری کی کافی گنجائش ہے، خاص طور پر سڑکوں کے حالات کے بارے میں۔
بھٹ کاکہنا تھا’’ہمارے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے اور بی ایس این ایل ٹاور حال ہی میں لگائے گئے تھے۔ ہمارے نوجوان مواصلاتی رکاوٹوں کی وجہ سے وادی سے باہر ملازمتوں کیلئے درخواست دینے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔
سابق سرکاری ملازم ممتاز احمد خان نے خطے کی طویل عرصے سے نظر انداز کی جانے والی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا’’۷۰ سال سے زیادہ عرصے تک، کسی نے بھی ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ سڑکیں نہیں تھیں۔ تاہم ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد ہم نے ترقی میں تبدیلیاں دیکھی ہیں‘‘۔
مرکز نے ۵؍اگست ۲۰۱۹کو آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی دفعات کو منسوخ کردیا تھا اور سابق ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔
خان انتخابات کے بارے میں پرامید ہیں، جو آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد پہلا انتخاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی جیسے روایتی طور پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے گروہ بھی اس بار حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
خان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر( پی او کے) میں صرف ۲۵کلومیٹر دور واقع قدیم شاردھا مندر کے لئے ایک سیاحتی راہداری قائم کرے۔ خان نے مندر کو ایک اہم ثقافتی مقام قرار دیا۔
منیر احمد بھٹ جیسے مقامی لوگوں نے سیاحت کے فوائد کو دیکھنا شروع کر دیا ہے… ریستوراں اور ہوٹل کھولنا‘ لیکن وہ بہتر سڑک رابطے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔منیر نے علاقے میں بنیادی طبی خدمات کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ہمیں امید ہے کہ کام اس سال مکمل ہوجائے گا‘‘۔
ریستوراں کے مالک شفیق لون نے بھی سڑکوں کی خستہ حالی اور طبی سہولیات کے فقدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔’’مجھے صحت کے مسائل ہیں، لیکن مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ امیدوار ہمارے ووٹ مانگنے آتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد غائب ہو جاتے ہیں‘‘۔
ایک اور رہائشی سفینہ نے کہا’’سڑک رابطہ ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھار ہمیں اپنی گاڑیوں کو وہاں سے گزرنے کے لیے دھکیلنا پڑتا ہے‘‘۔انہوں نے مقامی ہسپتال میں ماہرین کی غیر موجودگی پر بھی روشنی ڈالی اور صحت کی بہتر سہولیات کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
کیرن ایل او سی کے ساتھ منقسم ہے، جس کا ایک حصہ بھارت کے کپواڑہ ضلع میں اور دوسرا پی او کے میں ہے، جس میں کشن گنگا ندی بہتی ہے۔
حکومت اس خطے میں سرحدی سیاحت کو فعال طور پر فروغ دے رہی ہے اور کیرن کو شمسباری پہاڑوں کے درمیان سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہی ہے۔
تاریخی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کیرن کو راجہ بہادر خان نے۱۰ ویں صدی میں قائم کیا تھا۔ کیرن کا سفر کرنے والے زائرین خوبصورت مقامات سے گزرتے ہیں ، جیسے ملیال ، راجا رام پہاڑ ، فرکن گاؤں اور کپواڑہ کے ٹیکر میں کھیر بھوانی مندر۔
کیرن پہلے کرناہ اسمبلی سیٹ کا حصہ تھا لیکن حد بندی کے بعد اسے شمالی کشمیر کے ترہگام حلقہ میں منتقل کر دیا گیا۔