سرینگر//
گرمائی دارلحکومت سرینگر میں جھیل ڈل کے کناروں پر واقع حضرت بل علاقے کے بغیر حضرت بل اسمبلی نشست کی مثال ایک سر بریدہ انسان کی سی ہے جس کی پہچان مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بن جاتی ہے ۔
وادی کشمیر میں حضرت بل ایک مقدس ترین مقام کے طور پر بلا لحاظ مذہب و مسلک لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے جہاں مذہبی تہواروں کے موقعوں پر اور جمعہ کے روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو کر بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہوجاتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت اور حاجات روا ہونے کیلئے دست بدعا ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ وہاں موجود موئے مقدس کے دیدار سے بھی فیضیاب ہوجاتے ہیں۔
کشمیری بلالحاظ مذہب و مسلک اس جگہ کو ایک روحانی مرکز مانتے ہیں۔
۲۰۲۲میں انجام دی گئی اسمبلی نشستوں کی سر نو حد بندی کے دوران حضرت بل علاقے کو حضرت بل حلقے سے الگ کر دیا گیا۔
یہ اسمبلی حلقہ جس علاقے کے نام سے موسوم ہے اسی علاقے کو کاٹ کر دوسرے حلقے کے ساتھ جوڑنے سے سیاسی مبصرین اور مقامی لوگ ورطہ حیرت میں پڑ گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین حضرت بل کو حضرت بل سیٹ سے الگ کرنا ورانسی لوک سبھا سیٹ کو کاشی ویشوناتھ مندر سے الگ کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض لوگ اس کو ایک سیاسی سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔
حضرت بل جو اب زڈی بل اسمبلی حلقے کا ایک حصہ ہے ، جغرافیائی لحاظ سے بھی اس نشست کے ساتھ کوئی میل نہیں کھاتا ہے اور مبصرین کا مانیں تو اس کے زمینی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
سیاست سے گہری دلچسپی رکھنے والے ایک مقامی ووٹر نے کہا’’اگر کسی دوسرے علاقے کو الگ کرکے ایسا کیا گیا ہوتا تو کوئی حیرانگی کی بات نہیں تھی لیکن مرکزی علاقے کو الگ کرکے دوسری نشست کے ساتھ جوڑنا کی کارروائی میری سمجھ سے بالاتر ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہماری ناک کاٹ دی گئی ہے ‘‘۔
نور محمد نامی ایک مقامی ووٹر نے بتایا’’ہمیں اب یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری سیٹ کن علاقوں پر مشتمل ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’اگر حضرت بل سیٹ سے حضرت بل کو الگ کر دیا گیا تو الیکشن کمیشن کو چاہئے تھا کہ وہ اب اس سیٹ کا نام بھی بدل دیتے کیونکہ جس نام سے یہ حلقہ موسوم ہے جب وہ علاقہ اس سیٹ کا حصہ ہی نہیں ہے تو پھر اس کا نام جاری رکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے ‘‘۔
ایک اور شہری نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا’’یہ حضرت بل کی مرکزیت کو کم کرنے کی ایک سازش بھی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ جگہ تمام کشمیریوں بلا لحاظ مذہب و ملت کے لئے ایک روحانی مرکز ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’جغرافیائی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اس کو الگ کرنے کا کوئی لاجک ہی نظر نہیں آتا ہے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’جب ہم نے ۲۰۲۲میں سنا کہ حضرت بل کو حضرت بل سیٹ سے الگ کر دیا گیا تو ہم سب ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایسا کن بنیادوں پر کیا گیا جس کا کوئی منطق ہی نہیں ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم نے اس عمل کو روکنے کے لئے ارباب اقتدار کے دروازوں پر کئی بار دستک دی لیکن بے سود ہماری فریاد پر کان نہیں دھرا گیا‘‘۔
واضح رہے کہ ۲۰۲۲میں جموں وکشمیر اسمبلی نشستوں کی سر نو حدی بندی کے دوران جموں میں۶حلقوں جبکہ کشمیر میں ایک حلقے کو بڑھا دیا گیا جس سے اسمبلی نشستوں کی کل تعداد۹۰ہوگئی۔