سرحد کے آر پار کسی معتبر سرکاری ذرائع کی تصدیق یا تردید سے فی الوقت تک قطع نظر کچھ باخبرذرائع مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان خاموشی کے ساتھ پردوں کی اوٹ میں تعلقات کو معمول پر لانے کے تعلق سے مذاکرات میں مصروف ہیں ۔ یہ مذاکرات پاکستان میں شہبازشریف کی قیادت میں متحدہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے قبل شروع ہوئے تھے جو حکومت کی تبدیلی کے باوجود فی الحال جاری ہیں۔
کیا یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے یا پہلے کی طرح ایک بار پھر ناکامی پر منتج ہوں گے اس بارے میں کچھ قطعیت کیساتھ کہانہیں جاسکتا ہے البتہ یہ واضح ہے کہ سرحد کے اُس پار پاکستان اور سرحد کے اِ س پار ہندوستان کی تعلقات کی بحالی اور تصفیہ طلب معاملات کا کوئی باوقار حل تلاش کرنے کی سمت میں اپنی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں اور مصلحتیں ہیں، لیکن ان مجبوریوں اور مصلحتوں سے کہیں زیادہ شکوک، خدشات، تحفظات اور عدم اعتماد اور عدم بھروسہ حاوی ہے ۔ اعتماد کا یہ فقدان اب ۷۵؍ برس کا بوڑھا ہورہاہے جس کو ایڈریس کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن دونوں ملک اپنی اپنی سیاسی موشگافیوں کے چنگل میں پھنسے ہیںاور اس چنگل سے خود کو آزاد نہیں کرپارہے ہیں۔
ہندوستان چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوسرے سبھی تصفیہ طلب معاملات کو حاشیہ پر رکھ کر کاروبار اور تجارت کے حوالہ سے تعلقات کا ایک نیا سفر شروع کیاجائے۔ دونوںملکوں کے درمیان تجارت کا خسارہ ہے جس کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کچھ عرصہ سے شدید معاشی بحران، مہنگائی اور قلت کے دور سے گذررہاہے۔ ہندوستان کے ساتھ تجارت اور کاروبار بحال ہو جائے تو اس کی کئی ایک مشکلیں اور راستے آسان ہوجائیں گے، مثال کے طور پر پاکستان کو فی الوقت گندم(آٹے) کی قلت کاسامنا ہے، ہر ۲۴؍ گھنٹے بعد پاکستان میںآٹا کی قیمتوں میںکچھ نہ کچھ اضافہ ہورہاہے۔ فوری طور سے پاکستان کو چارملین میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے یوکرین سے گندم منگواتا رہا لیکن یوکرین چونکہ حالت جنگ میںہے لہٰذا اُس ملک سے گندم کی ترسیل ممکن نہیں۔ پھر روس سے دو ملین میٹرک ٹن گندم کی خریداری کے حوالہ سے بات ہورہی ہے لیکن روس سے پاکستان تک ٹرانسپورٹ اور ڈھلائی پر آنے والے اخراجات بھار ی ہیں۔ ہندوستان سے گندم کی سپلائی کو یقینی بنایاجاتا ہے تو پاکستان کے بیک وقت کئی مسائل ، جو بحران کی شکل اختیار کرچکے ہیں، کا آسانی کے ساتھ حل تلاش کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کوبھی خام مواد کے حصول کے تعلق سے بحران کا سامناہے۔ عمران حکومت نے ہندوستان سے کپاس کی خریداری کی کوشش کی لیکن خود اس کی کابینہ کے کئی ساتھیوں نے مخالفت کرکے اس خریداری کا راستہ رول لیا۔ اور بھی کئی دوسرے شعبے ہیں جن کے حوالہ سے پاکستان ہندوستان سے کاروباری اور تجارتی تعلقات بحال کرکے درپیش بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کاراستہ تلاش کرسکتا ہے۔
لیکن پھر سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی، حکومتی، مذہبی قیادتیں اپنے اپنے سیاسی انانیت کے اندھے گھوڑوں کی سواری سے اُتر کر نیچے زمین پر قدم رکھنے کی کوشش کریں گے ، ۷۵؍ سال کا مشاہدہ ان توقعات کی نفی میں ہے۔ اگر چہ پاکستان کے موجودہ آرمی سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے چند ماہ قبل ایک مثبت بیان یہ کہہ کر دیا تھا کہ ماضی کی تلخیوں کو ماضی میں ہی رہنے دیا جائے اور مستقبل کے تعلق سے تعلقات کا ایک نیا باب رقم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن آرمی سربراہ کے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خود پاکستان کی سیاسی اور حکومتی قیادت نے کسی قسم کی پہل نہیں کی۔
یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ عالمی سطح پر دونوں ملکوں کے کچھ مشترکہ دوست ممالک دونوں کو آپسی تعلقات بہتر بنانے اور تصفیہ طلب معاملات کا باہمی مذاکرات اور مفاہمت کے جذبے کے ساتھ حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور بھی دے رہے ہیں اور تاکید بھی کررہے ہیں ۔ لیکن اس مشاورت اور تاکید کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی حرکت نظرنہیں آرہی ہے۔
اس کے برعکس دونوں ملک نہ صرف اپنی ہمسائیگی میںبلکہ مختلف عالمی فورموں اور راجدھانیوں میںایک دوسرے کے خلاف سفارتی اور دوسرے محاذوں پر باہم گریباں ہیں۔ تعلقات کی بحالی کی راہ میں سرحد کے اُس پار سے دراندازی، دہشت گردانہ تربیتی مراکز، منشیات کی سمگلنگ ، کشمیرکے تعلق سے پاکستان کی مداخلت بے جا ایسے معاملات حائل ہیں۔ ہندوستان پاکستان سے بار بار یہ مطالبہ کرتا رہاہے کہ وہ ان اشوز کو سنجیدگی سے ایڈریس کرکے اس کے تحفظات کا احترام کرے، دراندازی کا قلع قمع کرے اور تربیتی مراکز کو بند کرکے اپنے خلوص کا مظاہرہ کرے لیکن سرحد کے اُس پار کی قیادت ہندوستان کے ان جائز تحفظات کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس نہیں کررہی ہے۔
بہرحال مذاکراتی عمل کا کوئی بھی متبادل نہیں ہے۔ ماضی میںبھی دونوں ملک مذاکراتی عمل میںملوث رہے ہیں جن کے حوالہ سے کئی دوطرفہ شعبوں میں بہتری بھی آئی ہے اور توقعات کے برعکس نتیجہ خیز بھی رہے ہیں جن میں جنگ بندی معاہدہ پر سختی سے عمل درآمد خاص طور سے قابل ذکرہے۔ اب جبکہ بیک ٹو چینل درپردہ بات چیت ہورہی ہے یہی توقعہ کی جاسکتی ہے کہ یہ کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہو تا کہ خطے کے کروڑوں عوام سکون کی زندگی بسر کرسکیں جو بالآخر امن ، بقاء، سلامتی اور ترقی پرہی منتج ہوسکتاہے۔