تحریر:ہارون رشید شاہ
ہم سمجھ سکتے ہیں… اور سوفیصد ان کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں… لیکن صاحب کیجئے گا کیا کہ … کہ بات قسمت کی ہے … یا صرف قسمت کی نہیں ہے ۔راہل بابا آٹھ سال سے انتظار کررہے ہیں ‘ اپنی باری کا انتظار‘ لیکن کمبخت باری ہے جو آ نہیں رہی ہے اور … اور اگر قسمت کے علاوہ کچھ اور بھی ہوتا ہے تو… تو یقین کیجئے کہ ان کی باری کبھی نہیں آئیگی … بالکل بھی نہیں آئیگی ۔ پر کیا کیجئے گا کہ راہل بابا بھی بالآخر ایک انسان ہی ہیں ‘ اس لئے ان میں فرسٹریشن آنا لازمی ہے اور… اور اس فرسٹریشن اور بوکھلاہٹ میں یہ دن رات اور رات دن اپنے نریندرا بھائی مودی کو کچھ نہ کچھ سناتے رہتے ہیں… نریندرا بھائی مودی نے اقتدار میں آٹھ سال مکمل کئے ‘ اس پر بھی راہل بابا کو اعتراض ہے … انہیں کوئی اعتراض نہیں ‘ جنہوں نے نریندرا بھائی مودی کو چن لیا ‘ امنتخب کیا … لیکن راہل باباکو ہے … اس لئے یہ جناب گڑھے مردے اکھاڑ رہے ہیں… آٹھ سال مکمل ہونے پر نریندرا بھائی مودی کو نوٹ بندی یاد دلاتے ہوئے ان سے کہہ رہے ہیں کہ ان کا یہ ’ڈکٹیٹرانہ‘ فیصلہ لوگ اب بھی بھول نہیں گئے ہیں اور… اور بالکل بھی نہیں بھول گئے ہیں… اگر راہل باباکی بات کو صحیح اور سچ مان لیا جائے کہ لوگ نوٹ بندی کا فیصلہ نہیں بھول گئے ہیں تو… تو پھر صاحب سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو… تو لوگوں نے پھر دو بارہ نریندرا بھائی مودی کو چن کیوں لیا ‘ انہیں ایک اور بار بھارت کے تخت پر کیوں بٹھا دیا ؟اگر لوگ نوٹ بندی کا فیصلہ بھول نہیں گئے اور …اور ساتھ ہی انہوں نے نریندرا بھائی مودی کو دو بارہ منتخب بھی کیا ‘ ریاست پہ ریاست ان کے حوالے کررہے ہیں… تو… تو اس کا اس بات کا سوا کوئی اور معنی نہیں ہے… اور بالکل بھی نہیں ہے کہ … کہ نوٹ بندی اتنا بھی برا فیصلہ نہیں تھا … جتنا راہل بابا اسے سمجھتے ہیں یا لوگوں کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں… ممکن ہے کہ یہ فیصلہ راہل بابا کو منظور نہیں ہو … لیکن … لیکن لوگ جس طرح نریندرا بھائی مودی کو الیکشن کے بعد الیکشن جتوا رہے ہیں… جس طرح لوگ رال بابا کی کانگریس پارٹی کو الیکشن کے بعد الیکشن میں ہرا رہے ہیں… اس کا صاحب اس بات کے سوا کچھ اور مطلب ہو ہی نہیں ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے نوٹ بندی کے فیصلہ کو اپنے حق میں کیا گیا ایک بہتر فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے…اتنا قبول کیا ہے کہ وہ اسے بھلانے کیلئے تیار نہیں ہو رہے ہیں اور… اور بالکل بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ ہے نا؟