غیر ملکی فوجی تسلط اور ان کی سرپرستی میں مقامی کٹھ پتلی حکومت کے راہ فرار کے بعد حاصل آزادی، جس کے حصول کیلئے دہائیوں سے سیاسی وعسکری سطح پر جدوجہد کی گئی، ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں سوگئے ، بستیاں کھنڈرات میںتبدیل ہو تی رہی، لوگوں کی معاشرت اور معیشت تہہ وبالا ہوکررہی ،اور بحیثیت مجموعی کچھ بھی باقی نہ بچا جو مستقبل کے حوالہ سے زندگی کا آسرابن سکے، افغانستان آج کی تاریخ میں آزادی سے ہم کنار تو ہوا لیکن یہ وہ آزادی نہیں جو آبادی کے مختلف طبقوں کیلئے راحت اور سکون کا موجب بن سکے۔
افغانستان فی الوقت طالبان کے زیر کنٹرول ہے لیکن طالبان زبردست عسکری و افرادی قوت کے باوجود پورے ملک پر نہ کنٹرول حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی ملکی معیشت کو نئے بال وپر عطاکرنے کی سمت میں عالمی برادری کو ہی ابھی تک اپنا ہم نوا اور قائل کرسکے ہیں۔معیشت تنکوں کے سہارے ہے، لاکھوں بچے اور آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ فاقہ کشی کا شکار ہے، بچے تعلیم کے زیور سے بدستور محروم ہیں، خواتین کے حقوق اوران کی آزادی سلب کرلی گئی ہے، لڑکیوں کی تعلیم صرف پرائمریری کلاسوں تک محدود ہے، طالبان مخالف عسکری دھڑے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے نظریے کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو جاری رکھ کر انسانی لہو بہانے میں کوئی دریغ نہیں کررہے ہیں، مساجد میں مسلکی خطوط اور بُنیادوں پر نمازیوں کو بم حملوں کا نشانہ بناکر مساجد کے تقدس اور حرمت کو پامال کرنے میں کسی رئو رعایت سے کام نہیں لیاجارہاہے،طالبان قیادت کیلئے جہاں داعش نامی عالمی دہشت گردانہ تنظیم روزبروز قوت اختیار کرتی جارہی ہے وہیں ایک سابق عسکری کمانڈر رشید دوستم کی قیادت میں مختلف نظریات کی حامل مسلح دستوں پر مشتمل ایک نیا مزاحمتی کیمپ تشکیل پانے کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔
طالبان نے آزادی کے نام پر بے شک آزادی حاصل کرلی لیکن یہ آزادی افغانستان کیلئے نہیں بلکہ خود اپنے لئے حاصل کی ہے۔ آزادی کو حاصل کئے زائد از دس ماہ گذر گئے لیکن ابھی تک کسی ایک بھی ملک نے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ وجوہات کئی ایک ہیں۔ ان میں سے ایک طالبان کا سخت گیرانہ نظام، انسانی حقوق کا عدم احترام، آبادی کے پچاس فیصد حصے کو تعلیم ، نوکری ، روزمرہ کے معمولات، روزگار وغیرہ اہم شعبوں کے تعلق سے عائد پابندیوں کا نہ ختم ہونے والال سلسلہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ جس کا احاطہ اقوام متحدہ کے مقرر خصوصی مندوب برائے افغانستان نے ابھی حال ہی میں اپنے گیارہ روزہ افغان دورے کے اختتام پر بھی ایک مفصل رپورٹ میں کیاہے۔ اگر چہ طالبان نے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے لیکن زمینی سطح پر حقیقت یہی ہے جس کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔
طالبان قیادت یا بحیثیت مجموعی طالبان کے اس نظریے یا خواہش کو چیلنج نہیں کیاجاسکتاہے کہ وہ شریعت اور اسلام کے ضابطہ حیات کی روشنی میں زندگی کے کاروان کو آگے لے جانا چاہتے ہیں، بحیثیت مسلمان شریعت کی پابندی کا ان کا فیصلہ مستحسن ہے اور ناقابل چیلنج، لیکن اگر شریعت کو اس کے سیاق وسباق سے توڑ مروڑ کرشریعت کو اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق اپنے پیچھے چلنے کا پابند بنایاجائے توظاہر ہے اس کے نتائج موجب تکلیف ہی ثابت ہو تے رہینگے۔
خود آنحضور ﷺ کی قیادت میں مختلف جنگوں اور غزوات میںخواتین نے نرسوں کا رول اداکیا، زخمیوں کی میدان جنگ میں عیادت بھی کی اور زخموں پر مرہم کا کام بھی انجام دیا، زمانہ امن میں تعلیم سے بھی وابستہ رہیں اور خود آنحضور ﷺ اور اُمہات المومنین ؓ سے زندگی کے مختلف پہلوئوں کے تعلق سے استفسار ات بھی کرتی رہی، غالباًاپنے سخت گیرانہ اپروچ اور نظریہ میں طالبان اوران کی قیادت اسلام کے ان روشن پہلوئوں کو نظرانداز کرکے اپنی انانیت کے اندھے گھوڑوں پرسوار ہوکر کسی خاطر میں نہیں لارہی ہے۔ پھر کاروبار اور تجارت کے حوالہ سے حضرت خطیجہؓ کے کامیاب کاروبار اور تجارتی زندگی اور اس حوالہ سے ان کے رول کو بھی نظرانداز کیاجارہاہے ۔ کیا یہ طالبان کی سوچ اور اپروچ کا المیہ نہیں ؟
بندوق طالبان کا نشہ بن گیا ہے۔ وہ بندوق کی نوک پر اپنے لئے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیںلیکن یہ انہیں حاصل نہیں ہوگا۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ساتھ دُنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ خوشگوار اور بقائے باہم اور مفاہمت سے عبارت تعلقات ہی افغانستان کی آئندہ بقا اور سلامتی کے ساتھ ساتھ قیام امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر طالبان اپنے اختیار کردہ سخت گیرانہ اور غلط طرزعمل کے راستے پر چلنے کیلئے بضد رہے تو جس آزادی کو وہ محض چند ماہ قبل حاصل کرچکے ہیں وہ آنے والے چند مہینوں میں ان سے پھر اُسی طرح دور بھاگ جائیگی جس طرح پہلے کچھ سال قبل ان کے ہاتھوں سے پھسل کر بھاگ چکی تھی۔ پھر افغانستان کو منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ کرکے عالمی بازاروں تک پہنچانے کے ذمہ دار افراد، مافیاز اور اداروں کے تئیں طالبان حکومت کا نرم گوشہ بھی اقوام عالم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ۔ ہر سال کروڑوں ،اربوں ڈالر مالیت کی منشیات افغانستان سے سمگل ہورہی ہے، پکڑی بھی جارہی ہے، اس کاروبارمیں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے جو اضافہ ہوا اس پر عالمی سطح پر فکری مندی پائی جارہی ہے۔ فکرمندی اور تشویش کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس دھندہ کا براہ راست تعلق نارکو…ٹیرر سے ہے۔