دُنیا کے بہت سارے خطے ایسے ہیں جو متنازعہ نہیں لیکن وہاںامن نہیں، مختلف معاملات کو لے کر تخریب، فساد اور تشدد برپا ہے، ان خطوں میں قائم حکومتیں ملکی معاملات پر مکمل طور سے کنٹرول نہیں کرپارہی ہیں، طاقت اور اختیارات کے بل بوتے پر عوام کو دبایاجارہا ہے اور اگر عوام حکومتی دبدبے سے ڈرے بغیراپنے مطالبات اور خواہشات کی تکمیل کی راہ میں حکومتی ہٹ دھرمی، طاقت کا نشہ، بدمستی اور دبدبہ محسو س کررہے ہیں تو حالات براہ راست ٹکرائو اور تصادم کی طرف رُخ کرتے ہیں۔
کئی ملکوں کی حکومتیں اپنی پولیس اور فوج کے بیساکھیوں کے سہارے اپنا حکومتی وجود اور دبدبہ قائم کرکے ہر دستیاب اور ممکن سہارے لوگوں کو دبانے اور ان کی آواز کو کچلنے کا راستہ اختیار کرتی نظرآرہی ہیں۔ ملکی ہمسائیگی میں پاکستان ایک طرف تو دوسری طرف بنگلہ دیش کی مثالیں آنکھوں کے سامنے ہیں اور بجا طور سے مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے اندر سیاسی، معاشی، سماجی بحران کے شدت اور طول پکڑنے پر ملک کے لئے کچھ حلقوں نے بنگلہ دیشی ماڈل پر مبنی طرز حکومت کو موقعہ دے کر ملک میں نافذ کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن اس تجویز کو کچھ غور وخوض کے بعد ترک کردیاگیا۔
بہرحال بنگلہ دیش کے جوحالات اب آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا اپنی آرمی کے ساتھ یہ حکومتی ماڈل ناکامی کی ہی دہلیز پر دستک نہیں دے رہا ہے بلکہ اس ماڈل سے وابستہ ہر عمارت تیزی کے ساتھ زمین بوس ہوتی جارہی ہے۔اس ماڈل کے بوجھ تلے اب خود اس کے تخلیق کار دبتے اور کچلتے جارہے ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ اس ماڈل کو کچلنے کیلئے اب تک زائد از تین سو شہریوں کو اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اس مخصوص ملک میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں بشمول جموںوکشمیر سے تعلق رکھنے والے محتاط اندازوں کے مطابق پندرہ ہزار طالب علموں کا کیرئیر تباہ وبرباد ہی نہیں ہوا ہے بلکہ ان طلبان کی جانب سے اپنی تعلیم وتر بیت، قیام وطعام اور دوسرے اخراجات کی تکمیل کی سمت میں جو اربوں روپیہ کی سرمایہ کاری کی ہے وہ بھی خاک میں مل چکی ہے۔
ہندوستان نے بنگلہ دیش کے ان مخصوص واقعات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ ہے البتہ اپنے شہریوں اور طالب علموں وغیرہ کو ہر ممکن احتیاط برتنے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں یہ آپشن بھی دیا ہے کہ وہ چاہیں تو واپس آجائیں بلکہ اس سمت میںہزاروں لوگوں کو بہ حفاظت واپس لایا بھی گیا ہے۔لیکن اندرونی مسئلہ ہونے کے باوجود کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے کیونکہ اس نوعیت کے کچھ مخصوص معاملات کے اثرات دور دور تک پہنچ کر مرتب بھی ہوجاتے ہیں ۔ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکے تعلق سے صورتحال اور مرتب ہورہے اثرات کا فی الحال محض سرسری جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو سینکڑوں بچے بنگلہ دیش میں میڈیکل اور دوسرے شعبوں میںزیرتعلیم وتربیت تھے فسادات اور جلائو گھیرائو کے نتیجہ میں ان کاحال اور مستقبل اب مخدوش نظرآرہاہے۔ جو سرمایہ کاری اس حوالہ سے ہوچکی ہے وہ ڈوب چکی ہے کیونکہ کوئی ادارہ اُس کی واپس ادائیگی کیلئے تیار ہوگا اور نہ ہی کسی تعلق سے ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کی ضمانت دینے کیلئے تیار ہے۔
سیاسی اور انتظامی سطح پر تجزیہ کیاجائے تو وزیراعظم شیخ حسینہ ملک کی نوجوان قوت کا اعتماد اور بھروسہ کھوچکی ہے ۔ کورپشن اوراستحصال کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش کی پولیس اور آرمی پر جس نوعیت کے سنگین الزامات ہیں اور جن کا تذکرہ اور حوالہ اب ایک عرصہ سے ملکی اور بیرونی میڈیا کی وساطت سے سامنے آتا رہا ہے اُس سے پتہ لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی آرمی اصل میں اقتدار میں ہے، اس نے بنگلہ دیش کی ۹۰؍ فیصد سے زائد معیشت پر اپنا قبضہ کرلیا ہے، درآمدات اور برآمدات بنگلہ آرمی کے ہی کنٹرول میں ہے، مافیا طرز پر کاروبار اور درپردہ سرگرمیوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ انہیں پروان چڑھانے کیلئے بنگلہ دیش سے باہر کی دُنیا میں ذیلی ادارے قائم کئے گئے ہیں، اس سارے تناظرمیں آرمی کو ایک سویلین چہرہ دنیا کو دکھانے کیلئے درکار ہے تاکہ دُنیا پر باور کرایا جاسکے کہ ملک میں جمہوریت ، جمہوری ادارے اور جمہوری طرزعمل کا بول بالا ہے ۔ ایک اعتبار سے آرمی کو ایک کٹ پتلی کی ضرورت ہے جو اس کو مل گیا تھا۔
ملک کی نوجوان قوت کو طاقت اور تشدد کے اندھا دھند استعمال کے بل پر دبانے، کچلنے اور سینکڑوں کی تعداد میں گولیاں مارکرہلاک کرنے کا جو راستہ بنگلہ دیش کی قیادت نے اختیار کیا ہے وہ بجائے خود اس بات کااعتراف ہے کہ اس قیادت کو گہرے سیاسی اور اخلاقی فقدان کا سامنا ہے،اس کے فیصلے غلط اور عوام کی خواہشات اور احساسات سے متصادم ہے ۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے لوگوں کے لواحقین کے حق میں ملک کے مختلف شعبوں میں ریزرویشن کے حکومتی فیصلے کو کالعدم قراردیا لیکن عدالتی احکامات کا احترام کرتے ہوئے معاملات کو اس کے ساتھ ہی رفع دفع کرنا چاہئے تھا لیکن طاقت کے نشے اور بدمستی کا غیر اخلاقی مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی سیاسی قیادت اور حکمران طبقے نے ریزریشن کی مخالفت کرنے والے لاکھوں نوجوانوں اور طالبان علم کو ملک دُشمن ، غیر ملکی ایجنٹ اور مذہبی جنونی قراردے کر آرمی اور پولیس کو ان کے خلاف متشددانہ کارروائیاں کرنے کی نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ کھلی لائسنس بھی عطاکردی۔
اس حکومتی ردعمل کا اب نتیجہ یہ ہے کہ مظاہرین وزیراعظم کی برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں، ان کی کابینہ میںبعض کورپٹ اور بدعنوان وزراء کے خلاف بھر پور تادیبی کارروائی چاہتے ہیں اور حکومت قومی سطح کی حامل عبوری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کرر ہے ہیں۔ اطلاعت ہیں کہ حسینہ بیگم اپنے محل سے فرار ہوچکی ہے اور آرمی نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ بدمست حکمرانوں کا حشر یہی ہوتا ہے۔بہرحال مظاہرین اپنے موقف پر قائم ہیں۔
مظاہرین اور حکومت اور اس کے اداروں کے درمیان اس تصادم اور محاذآرائی کے تناظرمیں کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی آرمی نے صبروتحمل ، عقل وفہم اور ہوش وحواس سے کام لیا ہوتا تو نوبت اس حد تک نہیں پہنچ پاتی، جو حکومت اپنی جوان نسل کی صحت، سلامتی ، بقاء اور سب سے بڑھ کران کے حال اور مستقبل کے حوالوں سے ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کو اپنی کوئی ذمہ داری اور ترجیح نہیں خیا ل کرتی اُس حکومت اور اس کے پشت پناہ اداروں کا حشر یہی ہوتاہے۔ وہ طاقت کی بدمستی میںبہت گہرائی تک گرتے گرتے اور بغیر اپنے اندر کسی احساس کو جگائے کسی بھی خونریزی اورغارت گری کا راستہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے زیر نظر اپنے حقیر مفادات کا تحفظ مقدم بن جاتاہے لیکن کیجولٹی حکومت بن جاتی ہے۔ البتہ وہ حکومت جسے عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہو لیکن جو عوام کے ہرطرح کے حقوق اور مفادات کی رکھوالی اور نگہبانی میں اپنا سیاسی نریٹو تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرے وہ حکومت اپنے پائیدان پر مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہ پاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔