سرینگر//
وادی کشمیر میں جہاں کاشتکار چیری اتارنے کے کام میں مصروف ہیں وہیں کھیتوں میں دھان کی پنیری لگانے کا کام بھی شد ومد سے جاری ہے ۔
وادی میں گذشتہ دو برسوں کے دوران کسانوں نے خود پنیری لگانے کا کام کیا تھا کیونکہ کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں غیر مقامی مزدور میسر نہیں تھے ۔گرچہ امسال بھی کئی جگہوں پر گھر والوں کو پنیری لگاتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے تاہم بیشتر مقامات پر کھیتوں میں غیر ریاستی مزدور یہ کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
وسطی ضلع بڈگام کے پارس آباد گاؤں سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد نامی ایک کاشتکار نے یو این آئی کو بتایا کہ اس سال مجھے کھیت میں دھان کی پنیری لگانے کیلئے کسی مشکل یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انہوں نے کہا’’گذشتہ دو برسوں کے دوران غیر مقامی مزدور نہیں ملے جس کی وجہ سے ہمیں خود دھان کی پنیری لگانا پڑی‘‘۔ان کا کہنا تھا’’لیکن اس سال میں نے غیر ریاستی مزدورو ں کو لایا اور انہوں نے یہ کام انجام دیا‘‘۔
موصوف کاشتکار نے کہا کہ اب یہاں یہی مزدور ہمارا ہر کام کرتے ہیں چاہئے مکان بنانا ہو یا کاشتکاری سے متعلق کوئی دوسرا کام ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ مزدور کافی محنت کش بھی ہیں اور ہر کام بھی بہت ہی اچھے ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں۔
غلام حسن نامی ایک کاشتکار نے کہا کہ میں نے بھی حسب سابق پنیری لگانے کیلئے غیر مقامی مزدوروں کو ہی لایا۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال میں نے بھی مقامی مزدوروں کو لایا تھا جو بمشکل ہی مل گئے تھے لیکن اس سال آسانی غیر مقامی مزدور مل گئے جنہوں نے میرے دس کنال کھیت میں پنیری لگائی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک کنال زمین میں پنیری لگانے کے لئے یہ مزدور پانچ سو روپے لیتے ہیں جو کوئی زیادہ رقم نہیں ہے ۔
محمد اکبر نامی ایک کسان نے بتایا کہ ہمارے پاس زمین زیادہ نہیں ہے لہذا ہم اپنے ہی گھر والے یہ کام انجام دیتے ہیں۔انہوں نے کہا’’جس دن ہم نے یہ کام کرنا ہوتا ہے تو ہمارے بچے اس دن اسکول نہیں جاتے ہیں اور دوسرے بڑے لوگ بھی اس دن گھر پر ہی رہتے ہیں اور پنیری لگانے کے لئے کھیت پر آتے ہیں‘‘۔
علی محمد نامی ایک کسان نے بتایا کہ ہم دو تین رشتہ گھرانے ہیں اور ہم مل کر اپنے دیگر اہل خانہ سمیت ایک دوسرے کے کھیت میں پنیری لگاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم مزدور نہیں لاتے ہیں بلکہ مل کر اس کام میں ایک دوسرے کی مدد کرکے کھیت کو آباد کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں زرعی اراضی ہر گذرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے ۔
محکمہ زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران قریب ۸۰ہزار ہیکٹر زرعی زمین کو دیگر مقاصد بالخصوص رہائشی و کمرشل ڈھانچوں کی تعمیر اور میوہ باغات میں بدلنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی، جہاں لوگوں کی بنیادی خوراک چاول ہے ، میں زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنا اس ہمالیائی خطہ کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پابندی کے باوجود زرعی زمین پر رہائشی و کمرشل ڈھانچے تعمیر کرنے کی اجازت دینا بدقسمتی ہے جبکہ زیادہ کمائی کی لالچ میں زرعی زمین کو میوہ باغات میں بدلنا بھی افسوسناک ہے ۔