بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

وہ کشمیر اب کہیںکھو گیا ہے!

جارحیت ، جعلسازی اور جھوٹ کا بول بالا

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-07-23
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

ایک زمانہ تھا، زیادہ دور کی بات نہیں، جب سارا کشمیر قاضی گنڈ سے کھادن یار تک گائوں شہر، مسلکی تفریق، علاقائی تعصب سے بالا تر اور فکر وعمل کے حوالہ سے یک جان دو قالب بلکہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند آپسی اشتراک اور اتحاد ویکسوئی کی لڑی میں پروے تھے، اُس اتحاد اور یکجہتی پر رشک ہوا کرتا تھا لیکن نہ جانے کس بدبخت کی نظر لگ گئی، کس کی منحوسیت کے سایئے کشمیر پر فگن ہوتے گئے، آج وہی کشمیراوراس کا شیرازہ بکھرا بکھرا سا محسوس ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ چپے چپے پر اسی بکھرے پن اور منحوسیت کے نقش پر اُٹھتے اور چلتے قدموںکا پیچھا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا، کشمیر کی ماضی اور عصری تاریخ ایسے واقعات اور منظرناموں سے بھری پڑی ہے ان واقعات میں داخلیوں کا بھی اپنی ہوس گیری ، مفادپرستی اور ابن الوقتی کی ذہنیت سے عبارت کردار رہا ہے اور خارجیوں کا بھی، کیونکہ خارجی عنصر مقامیوں کے عملی تعاون اور اشراک کے بغیر اپنے اہداف کی تکمیل اور حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ اور حساس حلقے کشمیر کے اس مخصوص تاریخی منظرنامہ کے تناظرمیں اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر ہردور میںکسی نہ کسی المیے سے دو چاررہا ہے۔ بیرونی جارحیت کا بھی سامنا کرتارہا ہے اور اندونی جارحیت کا بھی ! یہ جارحیت مختلف پہلوئوں سے عبارت ہے۔
مغل شہنشاہ اکبر نے کشمیراور کشمیری عوام کو اپنی جارحیت، جعلسازی اوردغا بازی کا نشانہ بنایا اور یوں تقریباً پانچ سو سال قبل آزاد اور خودمختار کشمیر میں اپنی مخصوص جارحیت کی بُنیاد ڈالی، تب سے کشمیر مختلف نوعیت اور چہروں والی جارحیت سے نبردآزما ہے، ۴۷ء آیا اوراُمید جاگی کی اب کشمیر کو اس جارحیت سے آزادی نصیب ہوگی لیکن چند سال ہی تک اس آزادی کا ثمر حاصل ہونے کے بعد ایک نئی طرح اور شکل وصورت سے عبارت سیاسی، اقتصادی ، تہذیبی اور معاشرتی جارحیت کی زنجیروں میں کشمیر کو جکڑ لیا گیا۔جس جارحیت کی قیادت بخشی اینڈ کمپنی کے ہاتھ ہوتی گئی۔
بیرونی ہاتھ تو اپنی جگہ، مقامی سطح پر بھی یہ منظرنامہ نہ بدلا۔ بلکہ مختلف صورتوں میں اس کے سایے ہر گزرتے دن کے ساتھ دراز ہی ہوتے رہے۔ لوگوں کے مزاج بھی بدلتے رہے ، ایک دوسرے کے تئیں تعلق بھی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھتے رہے، مسلک او رمسلکی عقیدے اور نظریات بھی ذاتیات کی پسند اور عمل دخل سے عبارت ہونے لگے،کاروبار،تجارت اور دوسرے معاملات بھی کاروباری اور تجارتی ذہنیت کے جتنے بھی خاصے ہیں ان کی مطیع بنتے جارہے ہیں، اس کی مثال ایک یہ بھی ہے کہ کشمیر کی ڈل جھیل اور دیگر ندی نالوں(آبی) میں جو بھی مقامی سبزیاں بطور پیداوار حاصل کی جارہی ہیں مارکیٹ میں ان کی فروخت کچھ اس انداز سے کی جارہی ہے کہ سونا اور ہیرے جواہرات کی قیمت ان سے آگے شرمندہ ہے۔
ایسا کیوں ہے،جواب یہ ملتا ہے کہ یہ مقامی سبزیاں ہیں، کچھ ہی دنوں تک قابل فروخت اور استعمال رہتی ہیں پھر ان سبزیوں کا مزہ ہی کچھ نرالا ہے لہٰذا قیمتیں بھی اُسی کے مطابق مقرر اور وصول کی جارہی ہیں، ایسا کرنے میں کیا حرج ہے ۔ دیگر ساگ سبزیوں کا جہاں تک تعلق ہے توا ن کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، کشمیرکالہسن اب کشمیریوں کیلئے شجر ممنوعہ بنایاگیاہے ، اس کی جگہ طالبان کے افغانستان کا لہسن اور ہر طرح کے پھل کی کشمیرمیں استعمال کیلئے محفوظ راہداری یقینی بنائی جارہی ہے ۔
اسی طرح کشمیرکے پھل تو ملک کی مختلف منڈیوں اوربازاروں سے دور رکھنے کی پالیسی بطور جارحیت کے کچھ مدت سے متعارف اور نافذ العمل ہے۔ جنوبی افریقہ، یوروپی ومغربی ممالک، افغانستان، ایران وغیرہ کے پھل کی ملک کی مختلف منڈیوں اور بازاروں تک رسائی یقینی بنائی جارہی ہے اور یوں کشمیر کی میوہ صنعت اب نہ صرف روبہ زوال ہے بلکہ کشمیر کی اس صنعت ، جس کو کسی زمانہ میں کشمیر کی اقتصادیات کے حوالہ سے شہ رگ اور متوازی سمجھا جارہا تھا اب کچھ ہی برسوں کی مہما ن محسوس کی جارہی ہے۔ میوہ باغ مالکان چلا رہے ہیں کہ غیر ملکی پھلوں پر سو فیصد محصول عائد کیاجائے تاکہ کشمیراور ہماچل کا پھل لوگوں کو دستیاب رہے لیکن اُن کی سنتا کون ہے؟ میوہ کے تعلق سے مارکیٹ میںتوازن برقرار رکھنے اور اس کو یقینی بنانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن حکومت بے اعتنا ہے۔
معاشرتی سطح پر جو اتحاد اور آپسی اشتراک عمل اور یکجہتی کسی زمانے میں تھا اس کو بھی گہن لگا دیا گیا ہے۔ مختلف طریقوں سے مسلکوں، نظریات اور عقیدوں کی آڑ میں منافرت کی دیواروں کی تعمیر ایک نئی طرز کی فکری جارحیت کے روپ میں اب کچھ مدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ غلط کارعناصر کی بدبختانہ سرگرمیاں اشتعال انگیزی کا روپ دھارن کرتی جارہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان غلط کار عناصر کی سرگرمیوں کو کچھ لیڈرٹائپ کے دعویدار جواز عطا کرنے کے راستوں پر گامزن ہیں۔یہ بدبختانہ طرزعمل سرحد کے اُس پار کے طرزعمل سے متشابہہ ہے۔
مسلکی نظریات کے اس اختلافات کو ٹکرائو کی شکل عطا کرنے کیلئے جو کوئی بھی ملوث اور سرگرم ہے یہ حکومت اس کی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اور حساس سول سوسائٹی کی اولین ذمہ داری اور فرض بھی ہے کہ وہ ان عنصر کی سرکوبی کو یقینی بنائیں، تاکہ کشمیر میں جس امن کو زبردست قربانیوں اور کاوشوں کے بعد ممکن بنایا جارہاہے اس میںاب کوئی نیا رخنہ انداز ہونے کی جرأت نہ کرسکے اور معاشرتی سطح پر آپسی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ یکجہتی کی آبیاری ہوتی رہے۔
کشمیر کی مجموعی آبادی کا تقریباً ۹۰؍ فیصد مختلف امراض میں مبتلا ہے۔بازاروں میں جو ادویات دستیاب ہیں ان کی موثریت کے آگے بڑے بڑے سوالیہ لگائے جارہے ہیں ۔ ملک کے مختلف خطوں؍علاقوں میں قائم بعض دوا ساز فیکٹریوں کے بارے میں آئے روز غیر موثرادویات سازی کے تعلق سے رپورٹیں منظرعام پرآتی رہی ہے،جن کی تقسیم ، فروخت اور استعمال پر پابندی بھی لگتی رہی ہیں لیکن کشمیر کا متعلقہ سرکاری شعبہ مہر بہ لب ہے، ادویات کی موثریت پرکھنے کیلئے جدید ترین تجزیاتی لیبارٹری کی سہولیات دستیاب نہیں، اس حوالہ سے اس کاروبار سے وابستہ جتنے بھی شعبے ہیں انہیں فری ہینڈ حاصل ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے کشمیرمیں موجود سینکڑوں کلنکل لیبارٹریوں،ڈائیگونسٹک مراکز اور دوسرے متعلقہ کاروباریوں کو حاصل ہے، من مانے چارجز وصول کئے جارہے ہیں ، کوئی ادارہ پوچھنے والا نہیں ہے ۔لوٹ مچی ہوئی ہے ، یہ بھی ایک دوسری طرح کی جارحیت ہی ہے جس کا سامنا آبادی کے مختلف طبقوں سے وابستہ بیماروں کو ہے۔
اور بھی کئی دوسرے شعبے ہیں جو مختلف نوعیت مگر منفرد جارحیت سے جھوج رہے ہیں۔ جن میں کشمیر کا کان کنی شعبہ قابل ذکر ہے جس کے نتیجہ میں کشمیرمیں تعمیر وتجدید کا کام اب جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔مختصر اور نچوڑ یہ ہے کہ وہ کشمیر اب کہیں کھوگیا ہے جس کشمیر میں بچپن گذرا ہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

غلطی…!

Next Post

باب وولمر اگر زندہ ہوتے تو آج پاکستان کی کرکٹ بہت مختلف ہوتی، یونس خان

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
سہ فریقی سیریز: پاکستان اپنا پہلا میچ 7 اکتوبر کو کھیلے گا

باب وولمر اگر زندہ ہوتے تو آج پاکستان کی کرکٹ بہت مختلف ہوتی، یونس خان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.