نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداللہ کی طلاق کی درخواست پر ان کی اہلیہ پائل عبداللہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چھ ہفتے میں جواب دینے کے لئے کہا ہے ۔
عمر عبداللہ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
جسٹس سدھانشو دھولیہ اور جسٹس احسن الدین امان اللہ کی بنچ نے عمر عبداللہ کی نمائندگی کرنے والے وکیل کپل سبل کے دلائل سننے کے بعد پائل کو نوٹس جاری کیا اور انہیں چھ ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔
اپنے طلاق کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عمر نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور طلاق دینے کی درخواست کی۔ ہائی کورٹ نے ان کی طلاق کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
سبل نے عدالت عظمیٰ کی اس بنچ کے سامنے دلیل دی کہ ان کے مؤکل کی شادی’ختم‘ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار اور اس کی بیوی پائل گزشتہ۱۵سال سے الگ رہ رہے ہیں۔
سبل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ آئین کے آرٹیکل۱۴۲کا استعمال کرتے ہوئے عمر کی طلاق کی درخواست منظور کی جائے ۔
عمر اور پائل عبداللہ کی شادی یکم ستمبر۱۹۹۴کو ہوئی تھی۔ عمر کا دعویٰ ہے کہ وہ۲۰۰۹سے الگ رہ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ عبداللہ نے ’ظلم‘کی بنیاد پر اپنی اہلیہ سے طلاق کی مانگ کی ہے ۔
دہلی ہائی کورٹ نے دسمبر ۲۰۲۳میں عمر کی طلاق کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
عمر عبداللہ کے سپریم کورٹ پہنچنے سے پہلے دہلی ہائی کورٹ میں جسٹس سنجیو سچدیوا اور جسٹس وکاس مہاجن کی بنچ نے سال۲۰۲۳میں فیملی کورٹ کے۲۰۱۶کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔ فیملی کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ پائل عبداللہ پر لگائے گئے ظلم کے تمام الزامات واضح نہیں ہیں اور عمر عبداللہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سال ۲۰۱۶ میں ایک فیملی کورٹ نے عبداللہ کو طلاق کا حکم دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ پائل عبداللہ کے خلاف ظلم کے الزامات مبہم ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ’ظلم‘ یا’چھوڑ دینے‘ کے دعووں کو ثابت نہیں کر سکے گا۔ ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔ عمر اور پائل عبداللہ اپنے دونوں بیٹوں کی تحویل میں شریک ہیں۔