نئی دہلی//
مرکز کی جانب سے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کو زیادہ اختیارات دیے جانے پر کانگریس نے ہفتہ کو کہا کہ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کا امکان نہیں ہے۔
مرکز نے پولیس، آئی اے ایس اور آئی پی ایس جیسی آل انڈیا سروسز کے افسروں اور مختلف معاملوں میں استغاثہ کی منظوری دینے سے متعلق معاملوں پر جموں و کشمیر کے ایل جی کے دائرہ کار میں اضافہ کیا ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ نے جمعہ کے روز کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ کے تحت جاری کردہ قواعد میں ترمیم کے ذریعہ ایل جی کو یہ اختیارات دیئے ، جو سابق ریاست جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا’’اس نوٹیفکیشن سے صرف یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ جموں کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے‘‘۔
رمیش نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کو فوری طور پر ایک بار پھر ہندوستانی یونین کی مکمل ریاست بننا چاہئے۔
کانگریسی لیڈر نے کہا’’وزیر اعظم ریکارڈ پر کہہ رہے ہیں کہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا، جسے اگست ۲۰۱۹ میں مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات ۳۰ستمبر ۲۰۲۴ تک کرائے جائیں۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ کل رات وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ کی دفعہ۵۵ کے تحت ترمیم شدہ قواعد کو نوٹیفائی کیا جس میں ایل جی کے اختیارات میں توسیع دیتے ہوئے نئی دفعات شامل کی گئیں۔
ادھرکانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے ہفتہ کے روز کہا کہ مودی حکومت کی جموں و کشمیر کے ساتھ دھوکہ دہی بلا روک ٹوک جاری ہے۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں کھرگے نے کہا کہ یہ قدم مودی حکومت کے تحت روزانہ جاری رہنے والے ’سمودھان ہتا دیوس‘ کی ایک اور مثال کی عکاسی کرتا ہے۔
کانگریسی صدر کاکہنا تھا’’مودی حکومت کی جموں کشمیر کے ساتھ دھوکہ دہی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ۲۰۱۹ کی دفعہ ۵۵ کے تحت قواعد میں ترمیم کرکے ایل جی کو زیادہ اختیارات دینے والی نئی دفعات کو شامل کرنے کے صرف دو معنی ہیں۔ پہلا یہ کہ مودی حکومت جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے میں تاخیر کرنا چاہتی ہے، حالانکہ سپریم کورٹ نے۳۰ ستمبر ۲۰۲۴ تک اسمبلی انتخابات کا حکم دیا ہے۔دوسرا یہ کہ اگر مکمل ریاست کا درجہ بحال بھی ہو جاتا ہے، تب بھی وہ نو منتخب ریاستی حکومت کو ایل جی کے رحم و کرم پر رکھنا چاہتی ہے۔‘‘