سرینگر//
وادی کشمیر میں چیری اتارنے کا کام جہاں جوبن پر ہے وہیں شہر و گام کے میوہ فروشوں کی دکانیں ہوں یا ٹھیلے چیری کے ڈبوں سے مزین ہیں۔
اس فصل سے وابستہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ امسال پیدوار بھی تسلی بخش ہے اور بازار بھی کھلے ہیں لیکن منڈیوں میں چیری کی ریٹ تسلی بخش نہیں ہے ۔
بتادیں کہ وادی میں چیری کی فصل مئی کے وسط میں ہی تیار ہوکر بازاروں میں پہنچ جاتی ہے اور جولائی کے وسط تک اس کا سیزن رہتا ہے لیکن چیری ایک انتہائی حساس پھل ہے جس کی عمر نہایت محدود ہے ۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس فصل کے کاشتکاروں کو گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن (ایف پی او) اسکیم سے وابستہ محمد الطاف نامی ایک کاشتکار کا کہنا ہے کہ سرینگر اور بارہمولہ میں چیری اتارنے کا کام ایک ساتھ شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ امسال زیادہ گرمی پڑ جانے سے یہ فصل جلدی ہی تیار ہوگئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سال چیری کی پیداوار کافی اچھی ہے لیکن منڈیوں میں ہمیں اچھی ریٹ نہیں دی جا رہی ہے ۔
کاشتکار نے کہا کہ کشمیر اور شملہ کے چیری ایک ساتھ ہی بازاروں میں آگئے جس سے کشمیری چیری جو معیار و ذائقے میں بہتر ہے ، کا بھاؤ گر گیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کشمیری چیری شملہ کی چیری سے معیار اور ذائقے میں حد درجہ بہتر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کاشتکار دلی کی منڈیوں میں براہ راست شملہ چیری تین سو رویے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں جبکہ کشمیری چیری کی ریٹ فی کلو صرف دو سو روپے ہے ۔
محمد الطاف نے کہا کہ سال گذشتہ کورونا وبا کے با وجود مخملی چیری باغ میں ہی دو سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس فصل کے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہم سرینگر اور دلی کی منڈیوں کے ساتھ رابطہ کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سال مخملی چیری باہر نہیں بھیج سکے کیونکہ ہمارے پاس ائیر کنڈیشنڈ گاڑیاں دستیاب نہیں تھیں۔
کاشتکار نے کہا کہ ہم ایسی سہولیات سے محروم ہیں جن کی بدولت ہم مال براہ راست باہر بھیج سکتے ۔انہوں نے کہا کہ ’ڈبل چیری‘جس کو پہلے کارڈ بورڈ بوکسز میں باہر بھیجا جاتا تھا کو اب پلاسٹک بوکسز میں باہر بھیجا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے ہم نے جموں اور کشمیر میں متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ رابطہ بھی کیا ہے ۔
الطاف احمد کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ کورونا وبا کے باوجود بھی ہم نے ایک کلو چیری دو سو روپے کے حساب سے فروخت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایگریکلچر کاپریشن مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ (این اے ایف ای ڈی) کاشتکار کو پیداوار بڑھانے میں بھر پور امداد کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہم باہر کی منڈیوں میں براہ راست مال بھیجیں گے ۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں مختلف اقسام کے چیری کی سالانہ پیداوار۱۳سے۱۵میٹرک ٹن ہے جس میں سے۶۰فیصد مخملی اور مشری چیری ہے جس کو خصوصی طور پر ائرکارگو و ریلوے کے ذریعے فروٹ منڈی ممبئی منتقل کیا جاتا تھا۔
دلی کی منڈی کو ۲۰فیصد جبکہ ملک کی دیگر منڈیوں کو۱۰فیصد مال منتقل کیا جاتا تھا۔