نئی دہلی//
ہندوستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی سال۲۰۲۳کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس رپورٹ کو غلط بیانی، حقائق کا چنندہ استعمال، جانبدارانہ، یک طرفہ اور ووٹ بینک کی سیاست سے بھری قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی ہندستان نے امریکہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسے ہندستانی شہریوں اور اقلیتوں پر نفرت انگیز جرائم، نسلی حملوں، عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حامیوں کو سیاسی حمایت فراہم کئے جانے کا بھی جواب دینا چاہئے ۔
آج یہاں ایک باقاعدہ بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا’’ہم نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ سال۲۰۲۳کیلئے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ پر غور کیا ہے ۔ پہلے کی طرح یہ رپورٹ بھی انتہائی متعصبانہ ہے ، اس میں ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو سمجھنے کا فقدان ہے اور واضح طور پر ووٹ بینک کے تحفظات اور متعصبانہ نقطہ نظر سے کارفرما ہے ۔ اس لیے ہم اسے مسترد کرتے ہیں‘‘۔
جیسوال نے کہا’’یہ عمل خود الزامات اور جوابی الزامات، غلط بیانی، حقائق کا چنندہ استعمال، جانبدار ذرائع پر انحصار اور مسائل کی یک طرفہ نمائش کا مرکب ہے ۔ یہ ہماری آئینی دفعات اور ہندوستان کے وضع کردہ قوانین کی تشریح کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ اس میں تعصب پر مبنی بحث کو فروغ دینے کے لیے چنندہ واقعات کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ کچھ معاملات میں رپورٹ قوانین اور ضوابط کی درستگی کے ساتھ ساتھ ان کو نافذ کرنے کے اختیار پر سوال اٹھاتی ہے ۔ یہ رپورٹ ہندوستانی عدالتوں کی طرف سے دیے گئے کچھ قانونی فیصلوں کی صداقت کو بھی چیلنج کرتی دکھائی دیتی ہے ‘‘۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ رپورٹ میں ان قوانین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو ہندوستان میں مالیاتی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ تعمیل کی ذمہ داری غیر منصفانہ ہے ، یہ ایسے قوانین کی ضرورت پر سوال اٹھانا چاہتی ہے ۔ خود امریکہ کے پاس زیادہ سخت قوانین اور ضوابط ہیں اور وہ یقینی طور پر اپنے لیے ایسے حل نہیں اپنائے گا۔
جیسوال نے کہا’’انسانی حقوق اور تنوع کا احترام ہندوستان اور امریکہ کے درمیان بحث کا ایک جائز موضوع رہا ہے اور رہے گا۔۲۰۲۳میں ہندوستان نے امریکہ میں ہندوستانی شہریوں اور دیگر اقلیتوں پر نفرت انگیز جرائم، نسلی حملوں، عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ اور نشانہ بنانے ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعہ تشدد اور بدسلوکی کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں انتہا پسندی کے حامیوں کو سیاسی سرپرستی فراہم کرنے کے کئی معاملات کو سرکاری طور پر اٹھایا ہے ‘‘۔
’’تاہم‘‘ ترجمان نے کہا’’ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اس طرح کے مکالمے دوسرے سیاسی نظاموں میں غیر ملکی مداخلت کا لائسنس نہیں بننے چاہئیں۔‘‘