نئی دہلی//
لوک سبھا اسپیکر کے عہدے پر حکمراں جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) اور اپوزیشن انڈیا گروپ کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں تیسری بار لوک سبھا اسپیکر کے انتخاب کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس میں حکمراں جماعت کی طرف سے سابق اسپیکر اوم برلا اور اپوزیشن کی طرف سے مسٹر کے سریش آمنے سامنے ہیں۔
اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس نے اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو وہپ جاری کیے ہیں کہ بدھ کو ووٹنگ کے وقت تمام اراکین پارلیمنٹ موجود رہیں۔
راجستھان کی کوٹا پارلیمانی سیٹ سے مسلسل تیسری بار جیتنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اوم برلا نے حکمراں جماعت کی جانب سے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں، جب کہ کیرالہ سے جیتنے والے کانگریس کے آٹھ بار رکن اسمبلی مسٹر سریش نے اپوزیشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔
پارلیمانی روایات کے مطابق لوک سبھا کے اسپیکر کا انتخاب متفقہ طور پر کیا جاتا ہے اور یہ عہدہ حکمران جماعت کے پاس رہتا ہے جب کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ عموماً اپوزیشن کے پاس رہتا ہے ۔ اسی روایت کے تحت حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اٹھارویں لوک سبھا کے لیے اسپیکر کے عہدے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی اپوزیشن سے بات کی تھی لیکن حزب اختلاف نے مطالبہ کیا کہ بدلے میں انہیں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا جائے ۔
پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ حکمراں جماعت نے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں سے بات کی ہے لیکن ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے اپوزیشن کی طرف سے جو شرط عائد کی گئی ہے وہ درست نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوک سبھا کا اسپیکر کسی خاص پارٹی کے لیے نہیں بلکہ پورے ایوان کے لیے ہوتا ہے اور اگر اپوزیشن اس کے لیے انتخابات پر اصرار کرتی ہے تو یہ افسوسناک ہے ۔
دوسری جانب کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا جاتا ہے تو وہ لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کے لیے حکمراں جماعت کے ساتھ اتفاق رائے کے لیے تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعمیری تعاون کریں۔ کھڑگے جی کو راج ناتھ سنگھ جی کا فون آیا تھا جس میں انہوں نے اسپیکر کی حمایت کرنے کو کہا تھا۔ پوری اپوزیشن نے کہا کہ ہم حکمراں جماعت کا ساتھ دیں گے لیکن روایت یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کو دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
راہل گاندھی نے کہا’’ آج اخبار میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے ساتھ تعمیری تعاون کرنا چاہئے۔ راجناتھ سنگھ جی نے ملیکارجن کھڑگے کو فون کیا اور ان سے اسپیکر کی حمایت کرنے کو کہا۔ پوری اپوزیشن نے کہا کہ ہم اسپیکر کا ساتھ دیں گے لیکن روایت یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کو دیا جائے۔ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ وہ کھڑگے جی کو واپس فون کریں گے، انہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔ پی ایم مودی اپوزیشن سے تعاون مانگ رہے ہیں لیکن ہمارے لیڈر کی توہین کی جارہی ہے‘‘۔
حکمراں پارٹی اور اپوزیشن اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے لوک سبھا اسپیکر کے عہدہ کے لیے الیکشن ہونا یقینی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر یہ انتخاب ہوتا ہے تو یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں تیسری بار ہوگا۔ آزادی کے بعد۱۹۵۲میں پہلی لوک سبھا اور۱۹۷۶میں پانچویں لوک سبھا میں بھی لوک سبھا اسپیکر کے عہدہ کے تعلق سے حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات ہوئے تھے ۔