پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے نریندرمودی کو تیسری بار وزیراعظم کے عہدے پر منتخب ہونے پر نیک خواہشات او رمبارکبادی کے پیغامات ارسال کئے ہیں اور اپنے پیغامات میںاُمید ظاہر کی ہے کہ ’’الیکشن میں آپ کی جماعت کی کامیابی لوگوں کا آپ کی قیادت پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے ، آئیں نفرت کو اُمید سے بدل کر ۲؍ ارب انسانوں کی ترقی کا موقع بنائیں‘‘، جواب میں وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کے دونوں رہنمائوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے ان کی ’نیک تمنائوں کو سراہا، البتہ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ ’’بھارت کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، بھاریتوں کی سکیورٹی اور خوشحالی ہمیشہ ترجیح رہے گی‘‘۔
اگر چہ دونوں طرف کے پیغامات بظاہر تہنیتی نوعیت کے ہیں لیکن ان میں پوشیدہ کچھ پیغامات بھی ہیں اور چھپی خواہشات کا اظہار بھی۔ پیغامات کے آپسی تبادلہ کا ابھی عوامی اور سیاسی سطح پر خیر مقدم کو زبان دی ہی جارہی تھی اور یہ توقع ابھی اُٹھان کی ہی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ جلد یا بہ دیر دونوں ملکوں کے آپسی تلخ اور کشیدہ تعلقات میں شاید آنے والے دنوں میں کچھ بہتری آجائیگی تاکہ اس سارے خطے میں سالہاسال سے جاری کشیدگی، نفرت اور دُشمنانہ روش کا کچھ حد تک خاتمہ ہوسکے اور آر پار کے کروڑوں لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کے مزید کچھ مواقع ہاتھ آجائیں گے لیکن بدقسمتی سے دونوں نہ نیک نیت ہیں اور نہ ایک دوسرے کے تئیں کوئی خلوص رکھتے ہیں۔
ابھی پیغامات کے تبادلوں کی سیاہی خشک بھی نہ ہوپائی تھی کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اپنی اپنی مخصوص اننگز کھیلتے ہوئے میدان میں اُترے، خواجہ آصف نے اپنے دونوں لیڈروں کے مبارکبادی کے پیغامات کے حوالہ سے کہا کہ ’’… ہم نے کون سا محبت نامہ بھیج دیا، مودی کو مبارکباد دینا سفارتی ضرورت ہے …‘‘
وزیرخارجہ جے شنکر نے دوسری بار وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالتے ہی ایک انٹرویو میں پاکستان اور چین کے بارے میںاپنے روڑ میپ کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان دونوں کے ساتھ معاملات مختلف ہیں جبکہ معاملات کی نوعیت بھی مختلف ہیں‘‘۔ پاکستان کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستان کراس بارڈر دہشت گردی کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جوسالہاسال سے جاری ہے‘‘۔
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب خاص مواقع پر دونوں ملکوں کے سربراہان نے ایک دوسرے کو مبارک بادی کے پیغامات ارسال کئے ہوں، ماضی میں ایسے کئی ایک مواقع گذر چکے ہیں ۔تعلقات، کاروبار اور تجارت کے حوالہ سے بھی دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاکر کام کرچکے ہیں، چاہئے کرکٹ کے تعلق سے ڈپلومیسی رہی ہو یا ٹریک ٹو کا راستہ اختیار کیاگیا ہو، دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی سطح پر بھی، وفود کی سطح پر بھی اور چوٹی سربراہی ملاقات کے حوالہ سے بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاملات کا حل تلاش کرنے کی سمت میں دونوں کی راجدھانیوں کی حدود سے باہر دوسری ممالک شرم الشیخ بشمول میں تنازعات کا حل تلاش کرنے کیلئے کچھ روڈ میپ وضع کئے جاتے رہے ہیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس نوعیت کی دوطرفہ کائوشوں ، ملاقاتوں اور روڈمیپ کو وضع کرنے کے باوجود معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں یا بڑھنے نہیںدیئے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ یا ادارے ہیں جو نہیں چاہتے کہ خطے کے دو جوہری ممالک آپس میں اشتراک عمل کے کسی رشتے میں بندھ جائیں، تعلقات میںتلخی کی بجائے خوشگوار بہتری لائی جائے اور دُنیا کے دوسرے ممالک کی طرح یہ دونوں ممالک بھی نہ صرف آپسی معاملات کا آپسی مشاورت اور باہمی تعاون کے جذبے کے تحت حل تلاش کیا کریں اور دنیا میں قیام امن، اقتصادی، سیاسی اور ماحولیاتی استحکام کے حوالہ سے اپنا اپنا یا مشترکہ طور سے کردار اداکریں وہ دونوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کسی نہ کسی اشو کو ہوا دے کر کھڑی کرکے راہ میں حائل ہوکر اپنے اپنے مخصوص نظریات اور ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔
ان افراد یا اداروں کے بارے میں برصغیر کی تقسیم کے وقت سے ہی یہ خیال پایا جارہا ہے کہ یہ وہ عنصر ہیں جو اپنے سینوں کے اندر ایک دوسرے کے تئیں دُشمنانہ جذبات کو نہ صرف پال رہے ہیں بلکہ آنے والے نسلوں کو بھی منتقل کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرزمین پر موجود ان عنصر کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ منفی رویہ اور منفی رجحانات اور منفی ترجیحات کی خصلتوں کے حامل ہیں، یہ نیم مذہبی، نیم سیاسی اور جنونی جذبات رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تئیں دُشمنانہ جذبات ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر اس خصلت کے افراد اور ادارے کون ہیں ان کی شناخت کسی سے پوشیدہ نہیں اور اسی طرح ہندوستان کی سرزمین پر اس مخصوص خصلت کے افراد اور ادارے کون ہیں ان کی بھی شناخت کسی پردے کے پیچھے نہیںہے۔
المیہ صرف یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں جو بھی لوگ برسراقتدار آجاتے ہیں وہ ان افراد اور اداروں کے دبائو میں آجاتے ہیں، یہ لوگ دونوں ملکوں کے فیصلہ ساز اداروں میں بھی موجود ہیں اور بہت حد تک فیصلہ سازی اور عمل درآمد کے حوالہ سے اپناسکہ چلاتے ہیں۔
یہ زمینی تلخ حقائق ہیں۔ آر پار کے اعتدال پسند، روشن خیال، لبرل اور جمہور قوتیں اس تکلیف دہ بلکہ ہر اعتبار سے مایوس کن منظرنامہ کے تناظرمیں عموماً یہ سوال کررہی ہیں کہ آخر کب تک ؟ کیا ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی، نیم مذہبی اور فوجی قیادتیں کبھی کسی مرحلہ پر ہوش کے ناخن لیتے ہوئی اس کشیدگی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی سمت میں اپنی نیک نیتی سے کام نہیں لے سکتی؟ آخر کب تک موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس عذاب مسلسل میں مبتلا رکھاجائیگا؟ یہ سچ ہے ہندوستان کو کراس بارڈر دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں کہ سرحد وں کے اِس پار ہزاروں کی تعداد میں مسلح فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ ان کی نگرانی اور اس پیمانے پر تعیناتی کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوپارہا ہے کہ دہشت گرد ہتھیاروں سمیت اِ س پار داخل ہونے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ کیوں انہیں سرحد پر ہی ڈھیر نہیں کیاجاتا؟
کیوں پاکستان کی مختلف نظریات کی حامل سیاسی قیادت ’کے‘ لفظ پر اٹکنے کی بجائے اپنے ۲۵؍ کروڑ عوام کی خوشحالی اور ترقی کی خاطر اپنے رویہ میں لچک نہ لاکر مشکلات کو اور زیادہ بڑھارہی ہے ۔ نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان کے لئے بھی آخر کب تک اور ہندوستان کیلئے بھی آخر کب تک کا سوال ہوتا رہے گا۔