اگلے چند گھنٹوں کے دوران دو بار وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے نریندرمودی تیسر ی بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف اُٹھانے والے ہیں۔ اب کی بار فرق صرف یہ ہے کہ دوباروہ بی جے پی کے نام پر اور اب کی بار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے نام پر اس عہدہ پر متمکن ہونے جارہے ہیں۔ حلف برداری کے بعد مخلوط کابینہ تشکیل پائے گی جس میں بی جے پی کے علاوہ اس کے اتحادی چند را بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی، نتیش کمار کی جے ڈی یو اور چراغ پاسوان اور بالی ووڈ سے وابستہ پون کلیان کے نمائندوںکو یقینی طور سے جگہ مل جائیگی۔
لیکن معاملہ حلف اُٹھانے اور کابینہ کی تشکیل ۵؍ سال کے لئے حرف آخر نہیں بلکہ نامزد وزیراعظم نریندرمودی اور بی جے پی کیلئے اصل درد سر کا آغاز ہوگا۔سیاسی مبصرین ، حالات واقعات پر گہری نگاہ رکھنے والے کولیشن دھرما کے حوالہ سے معاملات، پیچیدگیوں ، حساسیت، اور سب سے بڑھ کر کولیشن طرز حکومت کا حصہ دار بننے والی پارٹیوں کی قیادت کے سامنے اپنے ووٹروں کی ضروریات خواہشوں اور مانگوں کے حوالہ سے وعدوں کا ایفا اہم ترین مسئلہ ہے۔ معمولی سا انحراف بھی ایسی کسی بھی پارٹی کی سیاسی موت پر منتج ہوسکتا ہے۔
اس مخصوص تناظرمیں میں یہ بحث چھڑچکی ہے کہ وزیراعظم جواب تک اپنے آپ میں واحد فیصلہ ساز کی حیثیت رکھتا تھا اور گذرے ۲۲؍سال کے اقتدار کے دوران انہوںنے بحیثیت گجرات کے وزیراعلیٰ اور پھر بحیثیت ملک کے وزیراعظم کے طور سو فیصد حد تک فیصلہ سازی اور ان پر عمل آوری کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے کیا اب مختلف معاملات کے تعلق سے فیصلہ سازی میں اپنے کولیشن پارٹنروں کو شامل کرنے کا لچک دار راستہ اختیار کرے گا یا اگر کرے گا بھی تو کیا وہ ان پر عمل آوری کا راستہ ہموار ہونے دے گا؟ ایسی کسی بھی صورتحال کا یقینی طور سے منفی اثر کولیشن جماعتوں پر پڑے گا جو ان کی کولیشن میں برقراری یا دستبرداری کی ایک نئی سوچ کو جنم دے سکتا ہے۔
سیاسی مبصرین اس حوالہ سے آندھرا پردیش اور بہار کے وزراء اعلیٰ کے ان خصوصی مطالبات کا حوالہ دے رہے ہیں جن کا تعلق ان دونوں ریاستوں کو خصوصی درجہ دیئے جانے اور سالہاسال سے التواء میں چلے آرہے مختلف عوامی اہمیت کے حامل پروجیکٹوں جن کی تکمیل کا وہ ووٹران سے وعدہ کرچکے ہیں کی عمل آوری کیلئے درکار بہت بڑی سرمایہ کاری کا حصول خود ان پارٹیوں کی قیادت کے لئے بھی اور بڑی پارٹی کی حیثیت میں بی جے پی قیادت کیلئے بھی ایک بہت بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ دوسرا اہم ترین مدعا مسلم اقلیتوں کیلئے ریزرویشن کے تحفظ سے ہے۔ آندھرا پردیش اور بہار کی پارٹیاں اس اشو پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کا تحفظ ناگزیر ہے، اس تعلق سے آندھرا پردیش کے نومنتخب وزیراعلیٰ چند را بابو کے بیٹے نے ایک انٹرویو میں واضح کردیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کوئی احسان نہیں بلکہ ان کی اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کے تناظرمیں ان کا حق ہے جو گذشتہ ۲۰؍ سال سے انہیں مل رہا ہے، اس سوال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا بھی یہی موقف ہے جبکہ ساتھ ہی وہ ریزرویشن کے حوالہ سے وہ نئی سروے پر بضد ہیں۔ ان دونوں مخصوص معاملات مسلمانوں کی ریزرویشن اور ذات کے تعلق سے نئی سروے ایسے معاملات پر بی جے پی کا موقف واضح ہے جو شدید ترین مخالفت پر مبنی ہے۔ انہی اشوز کو لے کر سوال چرچہ میں ہے کہ آیا کیا وزیراعظم نریندرمودی ان کچھ اہم ترین اشوز پر لچک دکھائیں گے یا اپنے مزاج کے مطابق’مائی وے اور ہائی وے ‘ کا ہی راستہ اختیارکریں گے۔ اس صورت میں کولیشن سے ان پارٹیوں کی دستبرداری فی الحال ناممکن سے ممکن بن سکتی ہے ۔ صرف وقت کا انتظار رہے گا۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس پہلو کے ہوتے وزیراعظم کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کیلئے ان دونوں ریاستوں کو خصوصی درجہ کی ریاستیں قرار دینا ناممکن بن سکتا ہے۔ اس پہلو کا تعلق جموںوکشمیر سے ہے۔ جموںوکشمیر کو پونے سو سال تک حاصل خصوصی درجہ بشمول کچھ آئینی ضمانتوں اور تحفظات کے پانچ سال قبل اگست ۲۰۱۹ء میںا س نظریہ موقف اور دلیل کے ساتھ ختم کردیاگیا کہ یہ خصوصی درجہ اور آئینی تحفظات جموںوکشمیر میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کا موجب بن چکے تھے اور تب سے برابر حکمران جماعت بی جے پی کی لیڈر شپ اپنے اس فیصلے کا نہ صرف دفاع کرتی آرہی ہے بلکہ اس مدت کے دوران ملک میں جہاں کہیں انتخابات ہوئے یہاں تک کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کی گہما گہمی کے دوران بھی پارٹی قیادت دفعہ ۳۷۰؍ اور خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا کریڈٹ اپنے سر باند ھ باندھ کر لوگوں سے اپنے لئے منڈیٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہی، اب آندھرا پردیش اور بہار کے خصوصی درجہ والی ریاستوں کے طور تسلیم کرنے کے شدت سے کئے جارہے مطالبات کو تسلیم کرنے کا راستہ اگر اختیار بھی کیاجاتا ہے تو ایسا کرنے کیلئے اسے کسی نئی دلیل، کسی نئے استدلال یا کسی نئی منطق کا سہارا لینا پڑے گا۔
لیکن ایسا کوئی راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی ایک نیا پنڈورا بکس کھل سکتا ہے۔ سپریم کورٹ جموں وکشمیر کے حوالہ سے ۵؍اگست کے حکومتی فیصلے پر تقریباً مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنے اور ریاست کے دوٹکڑے کرنے کے فیصلے پر اگر چہ کوئی راست فیصلہ نہیںدیا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے یا رویہ کو بھی حکومت ایک سہارا اور بلینک چیک کے طور کیش کرتی رہی ہے۔
لداخ پہلے ہی ریاستی درجہ کا مطالبہ کرکے چھٹے شیڈول کی مانگ کررہا ہے۔ جموںوکشمیر ریاستی درجہ کی بحالی کے مرکز کی یقین دہانی کی عمل آوری کا منتظر ہے۔ آندھرا اور بہار کو خصوصی درجہ دیا جاتا ہے تو جموںوکشمیر کے لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ انہیں اس حق سے محروم کرکے کس اخلاقی اور سیاسی جواز کے تحت خصوصی درجہ دیا جارہا ہے۔ اغلب یہ بھی ہے کہ ایسے کسی امکانی صورت میں جموںوکشمیر سپریم کورٹ سے انصاف حاصل کرنے کیلئے رجوع کرسکتا ہے۔
یہی وہ حساس نوعیت کے چند معاملات ہیں جو وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں قاہم ہورہی مخلوط حکومت کے حال اور مستقبل کے حوالہ سے حد سے زیادہ Fragile تصور کئے جارہے ہیں۔ لیکن اس نازک اور مشکل ترین صورتحال سے قطع نظر کیا اقتدار کی مصلحتوںکے پیش نظر کولیشن پارٹنرکوئی اور راستہ اختیار کریں گے؟ یہ سوال فی الحال بنارہے گا۔